حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کفارے میں ایک غلام آزاد کرو۔ انھوں نے عرض کیا: میرے پاس تو غلام نہیں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: دو مہینے مسلسل روزے رکھو۔ انھوں نے عرض کیا: یہ میرے بس میں نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ۔ انھوں نے عرض کیا: میرے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے ٹوکرے میں کھجوریں آئیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: مسئلہ پوچھنے والے کہاں ہیں؟ (وہ آئے تو) حضورﷺ نے فرمایا: لو، یہ کھجوریں صدقہ کر دو۔ انھوں نے عرض کیا: اپنے سے بھی زیادہ فقیر پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! مدینہ کے دونوں طرف جو کنکریلے میدان ہیں ان کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ فقیر نہیں ہے۔ اس پر حضورﷺ اتنا ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے اور آپ نے فرمایا: اچھا! (جب تم اتنے ہی ضرورت مند ہو تو) پھر تم ہی اسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرلو (بعد میں کفارہ دے دینا)۔1 حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو خوب جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میںداخل ہوگا، اور اس سے بھی واقف ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک آدمی دربارِ الٰہی میں حاضر کیا جائے گا، اس کے لیے یہ حکم ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں اور بڑے بڑے گناہ مخفی رکھے جائیں۔ جب اس پر چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے کہ تُونے فلاں دن فلاں فلاں گناہ کیے ہیں تو وہ اقرار کرے گا اس لیے کہ انکار کی گنجایش نہیں ہوگی اور وہ اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا۔ پھر یہ حکم ہوگا کہ اس کو ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دے دو، تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی خود بولے گا کہ میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آتے۔ حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ اس کی یہ بات نقل فرما کر اتنے ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔2 حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں آگ سے نکلے گا۔ وہ ایک ایسا آدمی ہوگا جو کہ زمین پر گھسٹتا ہوا جہنم سے نکلے گا (جہنم کے عذاب کی شدّت کی وجہ سے سیدھا نہ چل سکے گا)، اس کو حکم ہوگا کہ جا جنت میں داخل ہوجا۔ وہ وہاں جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے سب جگہیں پُر ہوچکی ہیں۔ چناںچہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب! لوگ تو ساری جگہیں لے چکے ہیں (میرے لیے تو اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی)۔ وہاں سے ارشاد ہوگا کہ (دنیا کا) وہ زمانہ بھی تمھیں یاد ہے جس میں تم تھے؟ وہ کہے گا: خوب یاد ہے۔ ارشاد ہوگا: اچھا! کچھ تمنائیں کرو۔ چناںچہ خوب تمناؤں کا اظہار کرے گا۔ وہاں سے ارشاد ہوگا کہ تم کو تمہاری تمنائیں بھی دیں اور دنیا سے دس گنا زیادہ بھی دیا۔ وہ عرض کرے گا: آپ بادشاہوں