حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اس میں مشغول ہو جائیں۔ تو ان کے ایک اور ساتھی نے کہا: میں نے جب سے آپ کی صحبت اختیار کی ہے میں نے کبھی آپ سے ایسی بات نہیں سنی۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! بس یہی ایک بات میری زبان سے اچانک نکل گئی ہے ورنہ جب سے میں حضورﷺ سے جدا ہوا ہوں ہمیشہ میری زبان سے نپی تلی بات نکلی ہے (یعنی ہمیشہ سوچھ سمجھ کر بولتا رہا ہوں بس آج ہی چوک ہوگئی ہے) آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔3 حضرت سلیمان بن موسیٰ ؓکہتے ہیں کہ حضرت شدّاد بن اَوسؓ نے ایک دن کہا: دستر خوان لاؤ تاکہ ہم بھی اس کے ساتھ کھیل لیں۔ تو اس بول پر ساتھیوں نے ان کی گرفت کی اور یوں کہا: حضرت ابو یعلیٰ (یہ حضرت شداد ؓ کی کنیت ہے) کو دیکھو، آج ان کی زبان سے کیسی بات نکلی ہے۔ انھوں نے فرمایا: اے میرے بھتیجو! جب سے میںحضورﷺ سے بیعت ہوا ہوں ہمیشہ میں نے سوچ سمجھ کر نپی تلی بات ہی کہی ہے، بس یہی ایک بات اچانک کہہ بیٹھا ہوں، یعنی مجھ سے چوک ہوگئی ہے۔ اس بات کو چھوڑو اور تم اس سے بہتر بات لے لو اور وہ یہ دعا ہے: اے اللہ! ہم تجھ سے ہر کام میں جلدی نہ کرنے اور ثابت قدمی کو مانگتے ہیں اور رُشد و ہدایت پر پختگی کو مانگتے ہیں، اور تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور تیری اچھی طرح عبادت کرنے کی توفیق کو مانگتے ہیں، اور تجھ سے قلبِ سلیم اورسچی زبان مانگتے ہیں، اور تیرے علم میں جتنی خیر ہے اسے مانگتے ہیں اور ان شرور سے پناہ چاہتے ہیں جنھیں تو جانتا ہے۔ یہ دعا مجھ سے لے لو اور وہ بات جو اچانک نکل گئی ہے اسے چھوڑ دو۔1 پھر ابو نعیم نے دوسری سند سے اس جیسی روایت بیان کی ہے جس میں یہ ہے کہ جو بات میری زبان سے نکل گئی ہے اسے تم یاد نہ رکھو بلکہ اب جو میں تمھیں کہوں گا اسے یاد کرلو۔ اور وہ یہ ہے کہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ جب سونا اور چاندی کا خزانہ جمع کرنے لگ جائیں تو تم ان کلمات کو خزانہ بنا لینا، یعنی انھیں کثرت سے پڑھتے رہنا۔ اے اللہ! میں آپ سے ہر کام میں ثابت قدمی اور رُشد وہدایت پر پختگی مانگتا ہوں۔ پھر پچھلی حدیث جیسے الفاظ ذکر کیے اور مزید یہ دعا بھی ذکر کی: اور تو میرے جتنے گناہوں کو جانتا ہے میں تجھ سے ان تمام گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں، بے شک تو ہی غیب کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔2 حضرت عیسیٰ بن عقبہ ؓکہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں! روئے زمین پر کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے زبان سے زیادہ عمرِ قید کی ضرورت ہو۔3 حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا: میں تمھیں بے کار باتیں کرنے سے ڈراتا ہوں اور بقدرِ ضرورت بات کرنا ہی تمہارے لیے کافی ہے۔4