حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
{اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ o مَّالَہٗ مِنْ دَافِعٍ o}5 بے شک آپ کے رب کا عذاب ضرور ہو کر رہے گا کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا۔ تو ان کا سانس پھول گیا (اور وہ بیمار ہوگئے) اور بیس دن تک (ایسے بیمار رہے کہ) لوگ ان کی عیادت کرتے رہے۔1 حضرت عبید بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی جس میں سورۂ یوسف شروع کر دی۔ پڑھتے پڑھتے جب {وَابْیَضَّتْ عَیْْنٰہُ مِنَ الْحُزْنِ فَہُوَ کَظِیْمٌ o}2 پر پہنچے تو اتنا روئے کہ آگے نہ پڑھ سکے اور رکوع کر دیا۔3 حضرت عبد اللہ بن شدّ اد بن ہاد ؓکہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھ رہے تھے۔ میں آخری صف میںتھا۔ جب پڑھتے پڑھتے {اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ}4 پر پہنچے تو میں نے آخری صف سے حضرت عمر ؓ کے بلک بلک کر رونے کی آواز سنی۔5 حضرت ہشام بن حسن ؓکہتے ہیں: حضرت عمر ؓ قرآن پڑھتے ہوئے جب (عذاب کی) کسی آیت پر گزرتے تو ان کا گلا گھٹ جاتا اور اتنا روتے کہ نیچے گر جاتے اور پھر (کمزور ہو جانے کی وجہ سے) کئی دن گھر رہتے اور لوگ ان کو بیمار سمجھ کر عیادت کرتے رہتے۔6 حضرت عثمان بن عفان ؓ کے آزادکردہ غلام حضرت ہانی ؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان ؓکسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں اور نہیں روتے ہیں، لیکن قبر کو یاد کر کے روتے ہیں؟ فرمایا: میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، جو اس سے سہولت سے چھوٹ گیا اس کے لیے بعد کی منزلیں سب آسان ہیں، اور جو اس میں (عذاب میں) پھنس گیا اس کے لیے بعد کی منزلیں اور بھی زیادہ سخت ہیں۔ اور میں نے حضورﷺ سے یہ بھی سنا ہے کہ میں نے کوئی منظر ایسا نہیں دیکھا کہ قبر کا منظر اس سے زیادہ گھبراہٹ والا نہ ہو۔7 رزین کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ہانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان ؓ کو ایک قبر پر یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ہے: فَإِنْ تَنْجُ مِنْھَا تَنْجُ مِنْ ذِيْ عَظِیْمَۃٍ وَإِلَّا فَإِنِّيْ لَا أَخَالُکَ نَاجِیًا (اے قبر والے!) اگر تم اس گھاٹی سے سہولت سے چھوٹ گئے تو تم بڑی زبردست گھاٹی سے چھوٹ گئے، ورنہ میرے خیال میں تمھیں آیندہ کی گھاٹیوں سے نجات نہیں مل سکے گی۔1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ حضرت معاذ بن جبل ؓ کے پاس سے گزرے وہ رو رہے تھے۔ حضرت عمر نے