حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت عبد اللہ بن ابی سَلِیطؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابو احمد بن جحش ؓ (اپنی ہمشیرہ) حضرت زینب بنت جحشؓ کے جنازے کو اٹھائے ہوئے جا رہے ہیں حالاںکہ وہ نابینا تھے اور وہ رو رہے تھے۔ پھر میں نے سنا کہ حضرت عمر ؓ فرما رہے ہیں: اے ابو احمد! جنازے سے ایک طرف ہو جاؤ لوگوں کی وجہ سے تمھیں تکلیف ہوگی۔ ان کے جنازے کو اُٹھانے کے لیے لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ حضرت ابو احمد نے کہا: اے عمر! ہمیں اسی بہن کی وجہ سے ہر خیر ملی ہے اور ان کے جانے پر جو رنج و صدمہ مجھے ہے وہ جنازہ اٹھانے سے کم ہو رہا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: اچھا! پھر تو تم چمٹے رہو، چمٹے رہو۔1 حضرت اَحنف بن قیس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطّاب ؓکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قریش لوگوں کے سردار ہیں، ان میں سے جو بھی کسی دروازے میں داخل ہوگا اس کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت بھی ضرور داخل ہوگی۔ مجھے ان کی اس بات کا مطلب سمجھ میں نہ آیا یہاں تک کہ انھیں نیزے سے زخمی کیا گیا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت صُہَیبؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو تین دن نماز پڑھائیں، اور انھوں نے اس بات کا بھی حکم دیا کہ نئے خلیفہ کے مقرر ہونے تک لوگوں کو کھانا پکا کر کھلایا جائے۔ جب لوگ حضرت عمر کے جنازے سے واپس آئے تو دسترخوان بچھائے گئے اور کھانا لا کر رکھا گیا، لیکن رنج و غم کی زیادتی کی وجہ سے لوگ کھانا نہیں کھا رہے تھے۔ توحضرت عباس بن عبد المطّلب ؓ نے فرمایا: اے لوگو! حضورﷺ کا انتقال ہوا ہم نے اس کے بعد کھایا اور پیا، پھر حضرت ابو بکر ؓ کا انتقال ہوا تو ہم نے ان کے بعد کھایا اور پیا۔ اس لیے کھاناکھانا ضروری ہے، لہٰذا آپ سب یہ کھانا کھائیں۔ پھر حضرت عباسؓ نے ہاتھ بڑھا کر کھانا شروع کر دیا تو تمام لوگوں نے ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کر دیا۔ تو اس وقت مجھے حضرت عمرؓ کی بات سمجھ آئی کہ قریش لوگوں کے سردار ہیں۔2 حضرت ابو عیینہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ جب کسی آدمی کو کسی مصیبت پر تسلی دیا کرتے تو فرمایا کرتے: آدمی اگر صبر اور حوصلہ سے کام لے تو کوئی مصیبت نہیں ہے، اور گھبرانے اور پریشان ہونے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ موت سے پہلے کا معاملہ بہت آسان ہے اور اس کے بعد کا معاملہ بہت سخت ہے۔ حضورﷺ کی وفات کے صدمہ کو یاد کر لیا کرو اس سے تمہاری ہر مصیبت ہلکی ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ تمھیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔1 حضرت سفیان ؓکہتے ہیں: حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے حضرت اَشْعَث بن قیس ؓ کو ان کے بیٹے کی وفات پر تسلی دی تو فرمایا: اگر (بیٹے کے جانے پر) آپ کو رنج وصدمہ ہے تو یہ رشتہ داری کا تقاضا ہے۔ اب اگر آپ صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے بیٹے کا بدل عطا فرمائیں گے۔ اگر صبر کرو گے تو بھی تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہے گا لیکن آپ کو اجر وثواب ملے گا، اور اگر گلہ شکوہ کرو گے تو بھی تقدیر کا لکھا پورا ہو کر رہے گا لیکن آپ کو گناہ ہوگا۔2