حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت سُویبِط نے کہا: حضرت نُعَیمان غلط کہہ رہے ہیں، میں تو آزاد آدمی ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: انھوں نے تمہاری یہ بات ہمیں پہلے ہی بتا دی تھی۔ چناںچہ وہ لوگ حضرت سُویبِط کے گلے میں رسی ڈال کر لے گئے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر واپس آئے تو انھیں اس قصہ کا پتا چلا تو وہ اور ان کے ساتھی ان خریدنے والوں کے پاس گئے اور ساری بات بتا کر ان کی اونٹنیاں انھیں واپس کیں اور حضرت سُویبِط کو واپس لے کر آئے۔پھر مدینہ واپس آکر ان حضرات نے حضورﷺ کو یہ سارا واقعہ سنایا تو حضورﷺ اور آپ کے صحابہ اس قصہ کو یاد کر کے سال بھر ہنستے رہے۔1 (ان حضرات کے دل بالکل صاف ستھرے تھے اور حضرت سُویبِطؓکو معلوم تھا کہ حضرت نُعَیمانؓ کی طبیعت میں ہنسی مذاق بہت ہے اس لیے انھوں نے کچھ برا نہ محسوس کیا) حضرت ربیعہ بن عثمانؓ فرماتے ہیںکہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اپنی اونٹنی مسجد سے باہر بٹھا کر مسجد کے اندر چلا گیا۔ حضرت نُعَیمان بن عمرو انصاری ؓ جنھیں اَلنُّعَیْمَانْ کہا جاتا تھا ان سے حضورﷺ کے بعض صحابہؓ نے کہا: ہمارا گوشت کھانے کو بہت دل چاہ رہا ہے، اگر تم اس اونٹنی کو ذبح کردو اور ہمیں اس کا گوشت کھانے کو مل جائے تو بہت مزہ آئے گا، حضورﷺ بعد میں اونٹنی کی قیمت اس کے مالک کو دے دیں گے۔ چناںچہ حضرت نُعَیمان نے اس اونٹنی کو ذبح کر دیا۔ پھر وہ دیہاتی باہر آیا اور اپنی اونٹنی کو دیکھ کر چیخ پڑا کہ اے محمد! ہائے، ان لوگوں نے میری اونٹنی کو ذبح کر دیا۔ اس پرحضورﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے اور پوچھا: یہ کس نے کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا:نُعَیمان نے۔ حضورﷺ نُعَیمان کے پیچھے چل پڑے اور اس کا پتا کرتے کرتے آخر حضرت ضُبَاعہ بنتِ زُبیر بن عبد المطّلب ؓ کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت نُعَیمان اس کے اندر ایک گڑھے میں چھپے ہوئے تھے، اور انھوں نے اپنے اوپر کھجور کی ٹہنیاں اور پتے وغیرہ ڈال رکھے تھے۔ چناںچہ ایک آدمی نے اونچی آواز سے تو یہ کہا: یارسول اللہ! میں نے اسے نہیں دیکھا، لیکن انگلی سے اس جگہ کی طرف اشارہ کر دیا جہاں حضرت نُعَیمان چھپے ہوئے تھے۔ حضورﷺ نے وہاں جا کر انھیں باہر نکالا تو پتوں وغیرہ کی وجہ سے ان کا چہرہ بدلا ہوا تھا۔ حضورﷺ نے ان سے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا: یارسول اللہ! جن لوگوں نے اب آپ کو میرا پتا بتایا ہے انھوں نے ہی مجھے کہا تھا کہ اس اونٹنی کو ذبح کر دو۔ حضورﷺ مسکرانے لگے اور ان کا چہرہ صاف کرنے لگے اور پھر حضورﷺ نے اس دیہاتی کو اس اونٹنی کی قیمت ادا کی۔1 حضرت عبد اللہ بن مُصْعَب ؓ کہتے ہیں: حضرت مخرمہ بن نوفل بن اُہیب زہری ؓ مدینہ منوّرہ میں ایک نابینا بڑے میاں تھے۔ ان کی عمر ایک سو پندرہ سال تھی۔ ایک دن وہ مسجد میں پیشاب کرنے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے شور مچادیا۔ حضرت نُعَیمان بن عمرو بن رِفاعہ بن حارث بن سواد نجاری ؓ ان کے پاس آئے اور انھیں مسجد کے ایک کونے میں لے گئے