حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابنِ عباس نے کہا: حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے مجوسی غلام ابو لؤلؤہ نے۔ حضرت ابنِ عباس کہتے ہیں: (جب حضرت عمر ؓ کو پتہ چلا کہ اُن کا قاتل مسلمان نہیں بلکہ مجوسی ہے) تو میں نے اُن کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے اور وہ کہنے لگے: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے میرا قاتل ایسے آدمی کو نہیں بنایاجو لاَ إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ کر مجھ سے حجت بازی کر سکے۔ غورسے سنو! میں نے تم کو کسی عجمی کافر غلام کو یہاں لانے سے منع کیا تھا، لیکن تم نے میری بات نہ مانی۔ پھر فرمایا: میرے بھائیوں کو بلا لائو۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ انھوں نے فرمایا: حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زُبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ۔ ان لوگوں کے پاس آدمی بھیجا پھر اپنا سر میری گود میں رکھ دیا۔ جب وہ حضرات آگئے تو میں نے کہا: یہ سب آگئے ہیں۔ تو فرمایا: اچھا! میںنے مسلمانوں کے معاملہ میں غور کیا ہے۔ میں نے آپ چھ حضرات کو مسلمانوں کا سردار اور قائد پایا ہے، اور یہ امرِ خلافت صرف تم میں ہی ہوگا۔ جب تک تم سیدھے رہو گے اس وقت تک لوگوں کی بات بھی ٹھیک رہے گی، اگر مسلمانوں میں اختلاف ہوا تو پہلے تم میں ہوگا۔ جب میں نے سنا کہ حضرت عمرنے آپس کے اختلاف کا ذکر کیا ہے تو میں نے سوچا کہ اگرچہ حضرت عمر یوں کہہ رہے ہیں اگر اختلاف ہوا ، لیکن یہ اختلاف ضرور ہو کر رہے گا، کیوںکہ بہت کم ایسا ہواہے کہ حضرت عمرنے کوئی چیز کہی ہو اور میں نے اسے ہوتے ہوئے نہ دیکھا ہو۔ پھر ان کے زخموں سے بہت سا خون نکلا جس سے وہ کمزور ہو گئے۔ وہ چھ حضرات آپس میں چپکے چپکے باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ مجھے خطرہ ہوا کہ یہ لوگ ابھی اپنے میں کسی ایک سے بیعت ہو جائیں گے۔ اس پر میں نے کہا: ابھی امیر المؤمنین زندہ ہیں اور ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہونے چاہییں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں (ابھی کسی کو خلیفہ نہ بنائو)۔ پھرحضرت عمرنے فرمایا: مجھے اُٹھائو۔ چناںچہ ہم نے ان کو اٹھایا۔ پھر انھوںنے فرمایا: تم لوگ تین دن مشورہ کرو اور اس عرصہ میں حضرت صُہَیب ؓ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہیں۔ ان حضرات نے پوچھا: ہم کن سے مشورہ کریں؟ انھوں نے فرمایا: مہاجرین اور اَنصار سے، اور یہاں جتنے لشکر ہیں ان کے سرداروں سے۔ اس کے بعد تھوڑا سا دودھ منگوایا اور اسے پیا تو دونوں زخموں میں سے دودھ کی سفیدی باہر آنے لگی جس سے حضرت عمر نے سمجھ لیا کہ موت آنے والی ہے۔ پھر فرمایا: اب اگر میرے پاس ساری دنیا ہو تو میں اسے موت کے بعد آنے والے ہولناک منظر کی گھبراہٹ کے بدلے میں دینے کو تیارہوں، لیکن مجھے اللہ کے فضل سے امید ہے کہ میں خیر ہی دیکھوں گا۔ حضرت ابنِ عباس نے کہا: آپ نے جو کچھ فرمایاہے اس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے! کیا یہ بات نہیں ہے کہ جس زمانے میں مسلمان مکہ میں خوف کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے، اس وقت حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی کہ آپ کو ہدایت دے کراللہ تعالیٰ