حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس عورت کو بلایا اور اس سے فرمایا: کیا تم نے اس بکر ی میں زہر ملایا ہے؟ اس یہودی عورت نے کہا: آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: یہ دستی کا ٹکڑا جو میرے ہاتھ میں ہے اس نے مجھے بتایا ہے۔ اس عورت نے کہا: ہاں، میں نے ملایا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: زہر ملا کر تو کیا حاصل کرنا چاہتی تھی؟ اس عورت نے کہا: میں نے سوچا کہ اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو یہ زہر ملی بکری آپ کو نقصان نہیں کر سکے گی، اور اگر آپ نبی نہیں تو ہماری جان آپ سے چھوٹ جائے گی۔ حضورﷺ نے اس عورت کو معاف کر دیا اور اسے سزا نہ دی۔ اور جن صحابہ نے اس بکری کا گوشت کھایا تھاان میں سے بعض صحابہ کا انتقال ہو گیا، اور اس زہریلی بکری کا جو گوشت آپ نے کھایا تھا اس کی وجہ سے آپ نے اپنے کندھے پر سینگی لگوائی۔ حضرت ابو ہندؓ نے آپ کو سینگ اور چھری سے سینگی لگائی۔ حضرت ابو ہند انصار کے قبیلہ بنو بیاضہ کے آزادکردہ غلام تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انتقال کرنے والے صحابی حضرت بشر بن براء بن معرورؓ تھے اور حضورﷺ کے فرمانے پر اس عورت کو قتل کر دیا گیا۔1 حضرت مروان بن عثمان بن ابی سعید بن معلیؓ فرماتے ہیں کہ مرض الوفات میں حضور ﷺ کے پاس حضرت بشر بن براء بن معرورؓ کی بہن آئیں توحضورﷺ نے ان کو فرمایا: اے اُمّ بشر! میں نے تمہارے بھائی کے ساتھ جو بکری کا گوشت خیبر میں کھایا تھا اس کی وجہ سے مجھے اس وقت اپنی دل کی رگ کٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اور تمام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو نبوّت سے نوازا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺکو شہادت کا مرتبہ بھی عطا فرمایا ہے۔2 حضرت جَعْدہ بن خالد بن صِمَّہ جشمیؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک موٹے آدمی کو دیکھا تو ہاتھ سے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر یہ (مال) اس جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتا تو تمہارے لیے بہتر تھا۔ پھر حضورﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا اور صحابہ نے بتایا کہ یہ آدمی آپ کو (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) قتل کرنا چاہتا تھا۔ حضورﷺ نے اس سے فرمایا: ڈرو مت! اگر تمہارا یہ ارادہ تھا تو اللہ نے تمھیں اس میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔1 حضرت انسؓ فرماتے ہیں: صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے اَسّی آدمی ہتھیار لے کر حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ پر حملہ آور ہونے لگے تھے۔ وہ لوگ بے خبری میں حضورﷺ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضورﷺ نے ان کے خلاف بد دعا کی تو وہ سب پکڑے گئے۔ حضرت عفان راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ان کو معاف فرما دیا اور یہ آیت نازل ہوئی: {وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ م بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْْہِمْ}2 اور وہ ایسا ہے اس نے ان کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے) اور تمہارے ہاتھ ان (کے قتل) سے عین مکہ (کے قرب) میں روک دیے بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا۔3