حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ اُن کو ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ حضرت ابوبکرنے فرمایا: اے ابو عبد اللہ! (یہ حضرت عثمان کی کنیت ہے) پھر بھی۔ تب حضرت عثمان بن عفان نے عرض کیا: اللہ کی قسم! جہاں تک میں جانتا ہوں اُن کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے اور ہم میںان جیسا کوئی نہیںہے۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: اللہ آپ پر رحم فرمائے! اللہ کی قسم! اگر میں اُن کو چھوڑ دیتا (یعنی ان کو خلیفہ نہ بناتا) تو میں تم سے آگے نہ بڑھتا (یعنی تم کو خلیفہ بناتا کسی اور کو نہ بناتا)۔ حضرت ابو بکر نے ان دو حضرات کے علاوہ حضرت سعید بن زید ابو الاعور اور حضرت اُسید بن حضیر ؓ اور دیگر حضراتِ مہاجرین واَنصار ؓ سے مشورہ کیا۔ حضرت اُسیدنے کہا: اللہ کی قسم! میں ان کو آپ کے بعد سب سے بہتر سمجھتا ہوں۔ جن کاموں سے اللہ تعالیٰ خوش ہو تے ہیں ان ہی کاموں سے وہ (عمر ؓ) بھی خوش ہوتے ہیں،اور جن کاموں سے اللہ ناراض ہو تے ہیں ان سے وہ بھی ناراض ہو تے ہیں۔ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ اچھا ہے۔ خلافت کے لیے ان سے زیادہ طاقت ور اور کوئی والی نہیں ہوسکتا۔ حضور ﷺ کے بعض صحابہ نے یہ سنا کہ حضرت عبد الرحمن اور حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر تنہائی میں کچھ بات کی ہے۔ چناںچہ یہ حضرات حضرت ابو بکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن میں سے ایک صاحب نے حضرت ابو بکر سے عرض کیا کہ آپ حضرت عمرکی سختی کو جانتے ہی ہیں اور آپ ان کو ہمارا خلیفہ بنا رہے ہیں۔ اس بارے میں جب آپ کا پروردگار آپ سے پوچھے گا تو آپ اس کاکیا جواب دیں گے؟ اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا: ذرا مجھے بٹھا دو۔ کیا تم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو؟ جو تمہارے معاملہ میں ظلم کو توشہ بنا کر لے جائے وہ نامراد ہو۔ میں اپنے پروردگار سے کہوں گا: اے اللہ! جو تیری مخلوق میں سب سے بہترین تھا میں نے اسے مسلمانوں کا خلیفہ بنا یا تھا۔ میں نے جو بات کہی ہے وہ میری طرف سے اپنے پیچھے کے تمام لوگوں کو پہنچا دینا۔ اس کے بعدحضرت ابو بکر لیٹ گئے اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کو بلا کر فرمایا: لکھو! بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ معاہدہ ہے جو ابو بکر بن ابی قحافہ نے دنیا کی زندگی میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اور آخرت کے زمانہ میں داخل ہوتے ہوئے کیا ہے جب کہ کافر مومن ہو جاتا ہے اور فاجر کو بھی یقین آجاتا ہے اور جھوٹا سچ بولنے لگتا ہے۔ میں نے عمر بن خطّاب کو اپنے بعد تمہارا خلیفہ بنا یا ہے۔ تم ان کی سنو اور ان کی بات مانو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ، اس کے دین، اوراپنی ذات اور تمہارے ساتھ بھلائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ اگر (خلیفہ بن کر) عمر نے عدل سے کام لیا تو یہی میرا ان کے بارے میں گمان ہے اور اسی کا مجھے ان کے بارے میں علم ہے۔اور اگر وہ بدل گئے تو ہر آدمی جو گنا ہ کمائے گا اسی کا بدلہ پائے گا۔ میں نے تو خیر ہی کا ارادہ کیا ہے اور مجھے غیب کا علم نہیں۔ { وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ o} اور عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہو جائے گا جنھوں نے (حقوق اللہ وغیرہ میں) ظلم کر رکھا ہے کہ کیسی جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے ۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔