حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیا ہے۔1 حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ حضرت جبرائیل ؑ تمھیں سلام کہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ اور میں کچھ الفاظ اور بڑھانے لگی تو حضور ﷺ نے فرمایا: سلام ان الفاظ پر پورا ہو جاتا ہے۔ حضرت جبرائیل نے کہا: رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْبَیْتِ۔2 حضرت انس ؓ اور دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے (اندر آنے کی) اجازت لینے کے لیے فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ جواب میں حضرت سعد نے آہستہ سے کہا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔اور اتنا آہستہ جواب دیا کہ حضورﷺ سن نہ سکے۔ تین دفعہ یہی ہوا کہ حضورﷺ سلام فرماتے اور حضرت سعد چپکے سے جواب دیتے۔ اس پر حضورﷺ واپس جانے لگے تو حضرت سعد حضور ﷺ کے پیچھے گئے اور عرض کیا:ـیارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کا ہر سلام میرے کانوں تک پہنچا اور میں نے آپ کے ہر سلام کا جواب دیا لیکن قصداً آہستہ سے کہا تاکہ آپ سن نہ سکیں۔ میں نے چاہا کہ آپ کے سلام کی بر کت زیادہ سے زیادہ حاصل کر لوں۔ پھر وہ حضورﷺ کو اپنے گھر لے گئے اور ان کے سامنے تیل پیش کیا۔ حضور ﷺ نے وہ تیل نوش فرمایا۔ کھانے کے بعد حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی: أَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَأَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّائِمُوْنَ۔3 حضرت انسؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ اَنصار کو ملنے جایا کرتے تھے۔ جب آپ انصار کے گھر وں میں تشریف لاتے تو انصار کے بچے آکر آپ کے گرد جمع ہو جاتے۔ آپ ان کے لیے دعا فرماتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے اور انھیں سلام کرتے۔ چناںچہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ حضرت سعدؓ کے دروازے پر آئے اور ان کو سلام کیا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِکہا۔ حضرت سعد نے جواب تو دیا لیکن آہستہ سے دیا تاکہ حضورﷺ سن نہ سکیں۔ حضورﷺ نے تین دفعہ سلام کیا اور حضورﷺ کا معمول یہی تھا کہ تین دفعہ سے زیادہ سلام نہیں کیا کرتے تھے، تین دفعہ میں گھر والے اندر آنے کی اجازت دے دیتے توٹھیک ورنہ آپ واپس تشریف لے جاتے۔ پھر آگے پچھلی حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔1 حضرت محمد بن جبیر ؓکہتے ہیں: حضرت عمرؓ ایک مرتبہ حضرت عثمانؓ کے پاس سے گزرے۔ حضرت عمر نے انھیں سلام کیا انھوں نے سلام کا جواب نہ دیا۔ حضرت عمر حضرت ابو بکرؓ کے پاس گئے اور ان سے حضرت عثمان کی شکایت کی۔ (یہ دونوں حضرات حضرت عثمان کے پاس آئے) حضرت ابو بکر نے حضرت عثما ن سے کہا: آپ نے اپنے بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ حضرت عثمان نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے (ان کے سلام کو) سنا ہی نہیں، میں تو کسی گہری سوچ میں تھا۔ حضرت ابو بکر نے پوچھا: آپ کیا سوچ رہے تھے؟ حضرت عثمان نے کہا: میں شیطان کے خلاف سوچ رہا تھا کہ وہ