حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے یہ بد دعا فرمائی کہ اے اللہ! اگر یہ ان لوگوں کو برا کہہ رہا ہے جنھیں تیری طرف سے بہت سے فضائل وانعامات مل چکے ہیں تو تُو اسے عبرتناک سزا دے۔ چناںچہ ایک بختی اُونٹنی تیزی سے آئی، لوگ اسے دیکھ کر اِدھر اُدھر ہٹ گئے، اس اونٹنی نے اس آدمی کو روند ڈالا (اور اسے مار ڈالا)۔ میں نے دیکھا کہ لوگ حضرت سعد کے پیچھے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے ابو اسحاق! اللہ نے آپ کی دعا قبول کرلی۔2 حضرت مُصْعب بن سعد ؓ کہتے ہیں: ایک آدمی نے حضرت علیؓ کو برا کہا تو حضرت سعد بن مالک نے اس کے لیے بد دعا فرمائی۔ چناںچہ ایک اُونٹ یا اُونٹنی نے آکر اسے مار ڈالا۔ اس پر حضرت سعد نے ایک غلام آزاد کیا اور یہ قسم کھالی کہ آیندہ کسی کے لیے بد دعا نہیں کریں گے۔3 حضرت قیس بن ابی حازم ؓ کہتے ہیں: میں مدینہ کے ایک بازار میں چلا جا رہا تھا۔ جب میں احجار الزیت مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں اور ایک آدمی اپنی سواری پر بیٹھا ہوا حضرت علی بن ابی طالبؓ کو برا بھلا کہہ رہا ہے، لوگ اس کے چاروں طرف کھڑے ہیں۔ اتنے میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آکر وہاں کھڑے ہوگئے اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک آدمی حضرت علی بن ابی طالب کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ حضرت سعد آگے بڑھے لوگوں نے انھیں راستہ دیا۔ انھوں نے اس آدمی کے پاس کھڑے ہو کر کہا: او فلانے! تو کس وجہ سے حضرت علی بن ابی طالب کو برا بھلا کہہ رہا ہے؟ کیا وہ سب سے پہلے مسلمان نہیں ہوئے؟ کیا انھوں نے سب سے پہلے حضورﷺ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ کیا وہ لوگوں میں سب سے بڑے زاہد اور سب سے بڑے عالم نہیں تھے؟ ان کے اور بہت سے فضائل ذکر کیے اور یہ بھی کہا: کیا وہ حضورﷺ کے داماد نہیں تھے؟ کیا غزوات میں حضور ﷺ کا جھنڈا ان کے پاس نہیں ہوتا تھا؟ پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا مانگی: اے اللہ! اگر یہ آدمی تیرے ایک دوست کو برا کہہ رہا ہے تو ان لوگوں کے بکھرنے سے پہلے تو ان کو اپنی قدرت دکھا۔ چناںچہ ہمارے بکھرنے سے پہلے ہی اللہ کی قدرت ظاہر ہوئی، اس کی سواری کے پاؤں زمین میں دھنسنے لگے جس سے وہ سر کے بل ان پتھروں پر زور سے گرا جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور اس کا بھیجا باہر نکل آیا اور وہ وہیں مر گیا۔1 حضرت رَباح بن حارث ؓ کہتے ہیں: حضرت مغیرہؓ بڑی جامع مسجد میں تشریف فرما تھے اور کوفہ والے ان کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت سعید بن زیدؓ نامی ایک صحابی تشریف لائے۔ حضرت مغیرہ نے انھیں سلام کیا اور تخت پر اپنے پیروں کے قریب انھیں بٹھایا۔ اتنے میں کوفہ کا ایک آدمی آیا اور برا بھلا کہنے لگ گیا۔ حضرت سعید نے پوچھا: اے مغیرہ! یہ کسے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ انھوں نے کہا: حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو۔ حضرت سعید نے کہا: اے مغیرہ بن شعبہ!