حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت خالد بن سعید بن العاص ؓکی صاحب زادی حضرت اُمّ خالد کہتی ہیں: حضرت ابو بکر ؓکی بیعت ہوجانے کے بعد میرے والد یمن سے مدینہ آئے تو انھوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ سے کہا: اے بنو عبدِ مناف! کیا تم اس بات پر راضی ہوگئے ہو کہ دوسرے لوگ اس امرِخلافت میں تمہارے والی بنیں؟ یہ بات حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر کو پہنچائی، لیکن حضرت ابو بکر نے اس سے کوئی اثر نہ لیا۔ البتہ حضرت عمرنے حضرت خالد کی اس بات سے اثر لے کر اسے دل میں بٹھا لیا۔ چناںچہ حضرت خالدنے حضرت ابو بکر سے تین ماہ تک بیعت نہ کی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر کا حضرت خالد کے پاس سے گزر ہوا۔ حضرت خالد اس وقت اپنے گھر میں تھے۔ حضرت ابو بکرنے اُن کو سلام کیا۔ حضرت خالد نے ان سے کہا: کیاآپ چاہتے ہیں کہ میں آپ سے بیعت ہو جائوں؟ حضرت ابو بکر نے (اپنی طرف متوجہ نہ کیا بلکہ عام مسلمانوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے) کہا: جس صلح میں تمام مسلمان داخل ہوئے ہیں میں چاہتا ہوں تم بھی اس میں داخل ہو جائو۔ حضرت خالد نے کہا: آج شام کا آپ سے وعدہ ہے، میں آپ سے شام کو بیعت ہو جائوں گا۔ چناںچہ شام کو حضرت خالد آئے اس وقت حضرت ابو بکر منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، حضرت خالد ان سے بیعت ہو گئے۔ ان کے بارے میں حضرت ابو بکر ؓکی رائے اچھی تھی اور حضرت ابو بکر ان کی تعظیم کرتے تھے۔ چناںچہ جب حضرت ابو بکر شام کی طرف لشکر روانہ فرمانے لگے تو انھوں نے حضرت خالد کو مسلمانوں کا امیر بنا کر انھیں امارت کا جھنڈا دے دیا۔ حضرت خالد وہ جھنڈا لے کر اپنے گھر گئے۔ (جب حضرت عمر ؓکو اس کا پتہ چلا تو) حضرت عمر نے ( اس بارے میں) حضرت ابو بکر سے گفتگو کی اور کہاکہ آپ حضرت خالد کو امیر بنا رہے ہیں، حالاںکہ انھوںنے ہی (آپ کے خلیفہ بننے کے خلاف) وہ بات کہی تھی۔ حضرت عمر بار بار حضرت ابو بکر کو اپنی بات کہتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے ( اُن کی رائے کو قبول کرلیا اور حضرت خالد کو امارت سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ اوراس کے لیے) حضرت ابو اَرویٰ دوسی کو (حضرت خالد کے پاس) یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ آپ سے کہہ رہے ہیں ہمارا (امارت والا) جھنڈا ہمیںواپس کر دو۔ چناںچہ انھوں نے وہ جھنڈا نکال کر حضرت ابو اَرویٰ کو دے دیااورکہاکہ نہ تمہارے امیر بنانے سے ہمیں کوئی خوشی ہوئی تھی اور نہ اب تمہارے معزول کرنے سے ہمیں کوئی رنج وصدمہ ہوا ہے، اور قابلِ ملامت توآپ کے علاوہ کوئی اور ہے۔ (یہ حضرت عمر ؓکی طرف اشارہ ہے) حضرت اُمّ خالد کہتی ہیں کہ ابھی کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ حضرت ابو بکر میرے والد کے پاس آکر ان سے معذرت کرنے لگے اور وہ انھیں قسم دے کر کہہ رہے تھے کہ وہ کبھی حضرت عمرکا برائی سے تذکرہ نہ کریں۔ چناںچہ میرے والد مرتے دم تک حضرت عمرکے لیے دُعائے خیر کرتے رہے۔1