حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور حضرت محمد بن مَسْلَمہ ؓ نے حضرت زُبیر ؓ کی تلوار توڑ دی۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر لوگوں میں بیان فرمایااور ان کے سامنے اپنا عذر پیش کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! کسی دن یا کسی رات بھی یعنی زندگی بھر کبھی بھی میرے دل میں امارت کی تمنا پیدا نہیں ہوئی اور نہ اس کی خواہش ہوئی اور نہ میں نے کبھی اللہ سے امارت کو چھپ کر یا علی الاعلان مانگا۔ لیکن مجھے (مسلمانوں میں) فتنہ (پیدا ہوجانے) کا ڈر ہوا (کہ اگر میں امارت قبول نہ کرتا تو مسلمانوں میں جوڑ باقی نہ رہتا بلکہ ان میں توڑ پیدا ہو جاتا) اور میرے لیے امارت میں راحت کا کوئی سامان نہیں ہے۔ اور ایک بہت بڑے امر (یعنی امرِ خلافت) کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے جو میری قوت اور طاقت سے باہر ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ قوت عطا فرماوے (تو پھر وہ ذمہ داری ٹھیک طرح سے ادا ہو سکتی ہے)۔ اور میں دل سے یہ چاہتا ہوں کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ قوی آدمی ہے وہ آج میری جگہ اس امارت پر آجائے۔ حضراتِ مہاجرین نے حضرت ابو بکر ؓ کی اس بات کو اور اُن کے عذر کو قبول کرلیا، البتہ حضرت علی اور حضرت زُبیر ؓ نے فرمایاکہ ہمیں تو صرف اس بات پر غصہ آیا تھا کہ ہمیں مشورہ میں شریک نہیں کیا گیا، ورنہ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد لوگوں میں خلافت کے سب سے زیادہ حق دار حضرت ابو بکر ہیں۔ یہ حضور ﷺ کے غار کے ساتھی ہیں اور (قرآن کے الفاظ کے مطابق) یہ {ثَانِیَ اثْنَیْنِ} دو میں سے دوسرے ہیں۔ ہم ان کی شرافت اور بزرگی کو خوب پہچانتے ہیں، اور حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں انھیں لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیاتھا۔1 حضرت سُوید بن غَفَلہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سفیان ؓ حضرت علی اور حضرت عباس ؓ کے پاس (اُن کے گھر ) گئے اور یوں کہا: اے علی! اور اے عباس! (یہ بتائو کہ) یہ خلافت کا کام کیسے قریش کے سب سے زیادہ کم عزّت اور سب سے زیادہ چھوٹے خاندان میں چلا گیا؟ اللہ کی قسم! اگر تم چاہو تومیں (ابو بکر ؓ کے خلاف) سوار اور پیادہ لشکر سے سارا مدینہ بھر دوں۔ حضرت علی نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تو نہیں چاہتا کہ تم (ابو بکر کے خلاف) سوار اور پیادہ لشکر سے سارا مدینہ بھر دو۔ اور اے ابو سفیان! اگر ہم حضرت ابو بکر کو اس خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم ہر گز اُن کے لیے خلافت کو نہ چھوڑتے۔ بے شک مومن تو ایسے لوگ ہیں کہ سب ایک دوسرے کا بھلا چاہنے والے ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ اُن کے وطن اور جسم دور ہوں۔ اور منافقین ایسے لوگ ہیںجو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔2 حضرت ابو احمد دَہقان نے اسی کے ہم معنیٰ روایت ذکر کی ہے، جس میں مزید یہ مضمون بھی ہے کہ منافقوں کے بدن اور وطن اگر چہ قریب ہوں، لیکن وہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ اور ہم تو حضرت ابو بکر ؓ سے بیعت ہو