حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت رَجاء بن ربیعہ ؓ فرماتے ہیں: میں مدینہ منوّرہ میں حضورﷺ کی مسجد میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس حلقہ میں حضرت ابو سعید اور حضرت عبد اللہ بن عمروؓ بھی تھے کہ اتنے میں اس حلقہ پرحضرت حسن بن علی ؓ کا گذر ہوا۔ انھوں نے سلام کیا سب حلقہ والوں نے جواب دیا، لیکن حضرت عبد اللہ بن عمرو خاموش رہے، بلکہ کچھ دیر کے بعد وہ حضرت حسن کے پیچھے گئے اور جا کر کہا: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ پھر (حضرت ابو سعید ساتھ تھے ان سے) کہا: یہ وہ انسان ہے جو تمام زمین والوں میں سے آسمان والوں کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم! جنگِ صفّین کے بعد سے آج تک میں نے ان سے بات نہیں کی۔ تو حضرت ابو سعید نے کہا: آپ ان کے پاس جا کر اپنا عذر ان سے کیوں نہیں بیان کر دیتے؟ انھوں نے کہا: بہت اچھا (میں تیار ہوں۔ اتنے میں حضرت حسن اپنے گھر میں اندر جا چکے تھے) حضرت عبد اللہ وہاں کھڑے ہوگئے اور حضرت ابو سعید نے اندر آنے کی اجازت مانگی، حضرت حسن نے اجازت دے دی۔ پھر اندر جاکر حضرت ابو سعید نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کے لیے اجازت مانگی (ان کو بھی اجازت مل گئی) اور وہ اندر چلے گئے۔ حضرت ابو سعید نے حضرت عبد اللہ بن عمرو سے کہا: حضرت حسن کے گذرنے پر آپ نے جو بات ہم سے کہی تھی وہ ذرا اب پھر کہہ دیں۔ حضرت عبد اللہ نے کہا: بہت اچھا، میں نے یہ کہا تھا کہ یہ تمام زمین والوں میں سے آسمان والوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضرت حسن نے فرمایا: جب تمھیں معلوم ہے کہ میں تمام زمین والوں میں سے آسمان والوں کو سب سے زیادہ محبوب ہوں، تو پھر تم نے جنگِ صفّین کے دن ہم سے جنگ کیوں کی؟ یا تم نے ہمارے مخالفوں کی تعداد میں اضافہ کیوں کیا؟ حضرت عبد اللہ نے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میں نے لشکر کی تعداد میں اضافہ کیا اور نہ میں نے ان کے ساتھ ہو کر تلوار چلائی، البتہ میں اپنے والد کے ساتھ گیا تھا۔ حضرت حسن نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جس کا م سے اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہو اس کام میں مخلوق کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ نے کہا: جی معلوم ہے، لیکن میں والد کے ساتھ اس لیے گیا تھا کہ میں حضورﷺ کے زمانہ میں مسلسل روزے رکھا کرتا تھا۔ میرے والد نے حضورﷺ سے اس بارے میں میری شکایت کی اور یوں کہا: یا رسول اللہ! عبد اللہ بن عمرو دن بھر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے۔ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا: کبھی روزہ رکھا کرو کبھی افطار کیا کرو، اور رات کو کبھی نماز پڑھا کرو اور کبھی سویا کرو، کیوںکہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ اور حضورﷺ نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا: اے عبد اللہ! اپنے والد کی بات مانا کرو۔ (چوںکہ حضورﷺ نے والد کی ماننے کی مجھے بہت تاکید کی تھی اس لیے) جب وہ جنگِ صفّین میں شریک ہوئے تو مجھے ان کے ساتھ جانا پڑا۔1