حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو ماجد حنفی ؓ کہتے ہیں: ایک آدمی حضرت ابنِ مسعود ؓ کے پاس اپنے بھتیجے کو لے کر آیا، اس کا بھتیجا نشہ میں مدہوش تھا۔ اس آدمی نے کہا: میں نے اسے نشہ میں مدہوش پایا۔ حضرت ابنِ مسعود نے فرمایا: اسے خوب اچھی طرح ہلاؤ اور جھڑ جھڑاؤ اور اس کے منہ سے بو سونگھو۔ لوگوں نے اسے خوب ہلایا اور سونگھا تو اس کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ حضرت ابنِ مسعود نے حکم دیا تو اسے جیل خانہ میں ڈال دیا گیا۔ اگلے دن اسے جیل سے باہر نکالا اور فرمایا: کوڑے کی گانٹھ کو کوٹ دو تاکہ چابک جیسا ہو جائے۔ چناںچہ اسے کوٹ دیا گیا۔ پھر جلاد سے فرمایا: اسے مارو لیکن ہاتھ اتنا نہ اٹھاؤ کہ بغل نظر آنے لگے اور ہر عضو کو اس کا حق دو۔ حضرت عبداللہ نے اسے اس طرح کوڑے لگوائے جو زیادہ سخت نہ تھا اور جلاد کا ہاتھ بھی زیادہ اوپر نہیں اٹھتا تھا۔ کوڑے لگوانے کے وقت اس آدمی نے جبہ اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پھر حضرت ابنِ مسعود نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ آدمی یتیم کا بہت برا سرپرست ہے۔ (اے فلانے!) تم نے اسے تمیز نہ سکھائی اور نہ اسے اچھی طرح ادب اور سلیقہ سکھایا۔ اس نے رسوائی والا کام کر لیا تھا لیکن تم نے اس پرپردہ نہ ڈالا۔ پھر حضرت عبد اﷲ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں، اور جب کسی حاکم کے سامنے کسی کا جرم شرعاً ثابت ہو جائے تو اب اس حاکم پر لازم ہے کہ وہ اس مجرم کو شرعی سزا دے۔ پھر حضرت عبد اللہ سنانے لگے کہ مسلمانوں میں سب سے پہلے جس کا ہاتھ کاٹا گیا وہ ایک انصاری آدمی تھا۔ جب اسے حضورﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو غم کے مارے حضورﷺ کا برا حال ہوگیا، ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کہ حضورﷺ کے چہرے پر راکھ چھڑکی گئی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو اس آدمی کے لائے جانے سے بہت گرانی ہو رہی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: مجھے گرانی کیوں نہ ہو جب کہ تم لوگ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے مددگار بنے ہوئے ہو؟ (تمھیں وہیں اسے معاف کر دینا چاہیے تھا) اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے ہیں اور وہ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں (میں معاف نہیں کر سکتا، کیوںکہ) جب حاکم کے سامنے کوئی جرم شرعاً ثابت ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ اس جرم کی شرعی سزا نافذ کرے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: {وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا}1 اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور در گذر کریں ۔2 حضرت عمر وبن شعیب ؓ فرماتے ہیں: اسلام میں سب سے پہلے جو حدِ شرعی قائم کی گئی اس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک آدمی حضورﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ پھر اس کے خلاف گواہوں نے گواہی دی۔ حضورﷺ نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جب اس آدمی کا ہاتھ کاٹا جانے لگا تو لوگوں نے دیکھا کہ حضورﷺ کا چہرہ غم کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس پر راکھ چھڑک دی گئی ہو۔ صحابہ نے عر ض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو اس کے ہاتھ کے کٹنے سے سخت صدمہ ہو رہا