حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو، حالاںکہ تمہارے پاس جو دینِ حق آچکا ہے وہ اس کے منکر ہیں۔ رسول کو اور تم کو اس بنا پر کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لا چکے ہو شہر بدر کر چکے ہیں، اگر تم میرے راستہ پر جہاد کرنے کی غرض سے اور میری رضامندی ڈھونٖڈنے کی غرض سے (اپنے گھروں سے) نکلے ہو۔ تم ان سے چپکے چپکے دوستی کی باتیں کرتے ہو، حالاںکہ مجھ کو سب چیزوں کا علم ہے تم جو کچھ چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اور (آگے اس پر وعید ہے کہ) جو شخص تم میں سے ایسا کرے گا وہ راہِ راست سے بھٹکے گا۔1 امام احمد نے یہی حدیث حضرت جابرؓ سے نقل کی ہے اس میں یہ ہے کہ حضرت حاطبؓ نے عرض کیا: میں نے نہ تو یہ کام حضورﷺ کو دھوکہ دینے کے لیے کیا ہے، اور نہ منافق ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو غالب فرمائیں گے، اور حضورﷺ کے دین کو کمال تک پہنچائیں گے۔ (میں حضورﷺ کا رازکفارِ مکہ کو بتاؤں گا اس سے حضورﷺ کا کوئی نقصان نہ ہوگا)۔ اصل بات یہ تھی کہ میں قریش میں اجنبی باہر کا آدمی ہوں اور میری والدہ ان کے ساتھ رہتی ہیں، تو میں نے چاہا کہ ان پر احسان کر دوں۔ حضرت عمر نے حضور ﷺ سے کہا: کیا میں اس کا سر نہ اُڑا دوں؟ حضور ﷺ نے فرما یا: کیا تم اہلِ بدر میں سے ایک آدمی کو قتل کرو گے؟ تمھیں کیا خبر کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف جھانک کر فرما دیا ہو کہ تم جو چاہے کرو۔2 حضرت ابو مطر ؓکہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ کے پاس ایک آدمی لایا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ اس آدمی نے اُونٹ چوری کیا ہے۔ حضرت علی نے کہا: میرے خیال میں تو تم نے چوری نہیں کی ہے۔ اس نے کہا: نہیں، میںنے چوری کی ہے۔ حضرت علی نے فرمایا: شاید تمھیں شبہ ہوگیا ہو (کہ تمہارا اونٹ ہے یا کسی اور کا)۔ اس نے کہا: نہیں، میں نے چوری کی ہے۔ حضرت علی نے فرمایا: اے قنبر! اسے لے جاؤ، اس کی انگلی باندھ دو۔ آگ جلالو اور جلاد کو ہاتھ کاٹنے کے لیے بلالو اور میرے واپس آنے کا انتظار کرو۔ جب حضرت علی واپس آئے تو اس آدمی سے کہا: کیا تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ حضرت علی نے اسے چھوڑ دیا۔ اس پر لوگوں نے کہا: اے امیر المؤمنین! جب وہ ایک دفعہ آپ کے سامنے اقرار کر چکا ہے تو آپ نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ حضرت علی نے فرمایا: میں نے اسی کی بات پر اسے پکڑا تھا اور اسی کی بات پر اسے چھوڑا ہے۔ پھر حضرت علی نے فرمایا: حضورﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے چوری کی تھی، حضورﷺ کے فرمانے پر اس کا ہاتھ کاٹا جانے لگا تو حضورﷺ رو پڑے۔ میں نے عرض کیا: آپ روتے کیوں ہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: میں کیوں نہ رؤوں جب کہ میرے اُمتی کا ہاتھ تم سب کی موجودگی میں کاٹا جا رہا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: آپ نے اسے معاف کیوں نہ کر دیا؟ آپ نے فرمایا: وہ بہت برا حاکم ہے جو شرعی سزا کو معاف کر دے، ہاں تم لوگ آپس میں یہ جرائم ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو (شرعاً ثابت ہونے کے بعد حاکم معاف نہیں کر سکتا)۔1