حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وَأَتَجَمَّلُ بِہٖ فِيْ حَیَاتِيْ۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے یہ دعا کیوں پڑھی؟ ساتھیوں نے کہا: نہیں، آپ بتائیں تو ہمیں پتہ چلے۔ حضرت عمر نے فرمایا: ایک دن میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، آپ کے پاس نئے کپڑے لائے گئے جنھیں آپ نے پہنا پھر یہ دعا پڑھی : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ کَسَانِيْ مَا أُوَارِيْ بِہٖ عَوْرَتِيْ وَأَتَجَمَّلُ بِہٖ فِيْ حَیَاتِيْ۔ پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق دے کر بھیجا! جس مسلمان بندے کو اللہ تعالیٰ نئے کپڑے پہنائیں اور وہ اپنے پرانے کپڑے کسی مسکین مسلمان بندے کو صرف اللہ کے لیے پہنا دے تو جب تک اس مسکین بندے پر ان کپڑوں کا ایک دھاگہ بھی باقی رہے گا اس وقت تک یہ پہنانے والا اللہ کی حفاظت، پناہ اور ضمانت میں رہے گا چاہے زندہ ہو یا مر کر قبر میں پہنچ جائے۔ پھر حضرت عمر نے اپنے کُرتے کو پھیلا کر دیکھا تو آستین انگلیوں سے لمبی تھی۔ تو حضرت عبد اللہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! ذرا چوڑی چھری لانا۔ وہ کھڑے ہوئے اور چھری لے آئے۔ حضرت عمر نے آستین کو اپنی انگلیوں پر پھیلاکر دیکھا تو جو حصہ انگلیوں سے آگے تھا اسے چھری سے کاٹ دیا۔ ہم نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! کیا ہم کوئی درزی نہ لے آئیں جو آستین کا کنارہ سی دے۔ حضرت عمر نے کہا: نہیں۔ حضرت ابو اُمامہ کہتے ہیں: بعد میں میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کی اس آستین کے دھاگے ان کی انگلیوں پر بکھرے ہوئے تھے اور وہ انھیں روک نہیں رہے تھے۔1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے نیا کُرتا پہنا، پھر مجھ سے چھری منگوا کر فرمایا: اے میرے بیٹے! میرے کُرتے کی آستین کو پھیلاؤ اور میری انگلیوں کے کنارے پر دونوں ہاتھ رکھ کر جو انگلیوں سے زائد کپڑا ہے اسے کاٹ دو۔ چناںچہ میں نے چھری سے دونوں آستینوں کا زائد کپڑا کاٹ دیا (وہ چھری سے سیدھا نہ کٹ سکا اس لیے) آستین کا کنارہ ناہموار اونچا نیچا ہوگیا۔ میں نے ان سے عرض کیا: اے ابا جان! اگر آپ اجازت دیں تو میں قینچی سے برابر کر دوں؟ انھوں نے فرمایا: اے میرے بیٹے! ایسے ہی رہنے دو، میں نے حضورﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔ چناںچہ وہ کُرتا حضرت عمر ؓ کے بدن پر اسی طرح رہا یہاں تک کہ وہ پھٹ گیا، اور میں نے کئی دفعہ اس کے دھاگے پاؤں پر گرتے ہوئے دیکھے۔1 حضرت اسلم ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حجرِ اسود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: سن لے، اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھرہے، نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں نے حضورﷺکو تیرااستلام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تیرا استلام نہ کرتا۔ (استلام یہ ہے کہ حجرِ اسود کو آدمی چومے یا اسے ہاتھ یا لکڑی لگا کر اسے چومے) پھر حجرِ اسود کا استلام کیا۔ اس کے بعد فرمایا: ہمیں رَمل سے کیا لینا؟ (رَمل طواف کے پہلے تین چکروں میں اَکڑ کر چلنے کو کہتے ہیں)