حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو (کہ ان کے بغیر ہی ان کی بیعت ہوگئی اور ادھر) وہ بیت اللہ کا طواف کر ر ہے ہیں اور ہم یہاں ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: نہیں، ہرگز نہیں، چاہے کتنے سال گزر جائیں، جب تک میں طواف نہیں کروں گا عثمان ہرگز طواف نہیں کرے گا۔1 ابنِ سعد کی روایت میں یہ ہے کہ اِبان نے حضرت عثمان ؓ سے کہا: اے میرے چچازاد بھائی! آپ نے بہت تواضع والی شکل وصورت بنا رکھی ہے، ذرا لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکاؤ جیسے کہ آپ کی قوم کا طریقہ ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا: نہیں، ہمارے حضرت ﷺ اسی طرح آدھی پنڈلیوں تک لنگی باندھتے ہیں۔ اِبان نے کہا: اے میرے چچازاد بھائی! بیت اللہ کا طواف کرلو۔ حضرت عثمان نے فرمایا: جب تک ہمارے حضرت ﷺ کوئی کام نہ کر لیں اس وقت تک ہم وہ کام نہیں کرتے، ہم تو ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں (اس لیے میں طواف نہیں کروں گا)۔ حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں: جنگِ یمامہ میں مُسَیلمہ کذاب مارا گیا اور اس کا فتنہ اور اس کا لشکر ختم ہوگیا، لیکن اس جنگ میں صحابۂ کرام ؓ بڑی تعداد میں شہید ہوگئے۔ بالخصوص قرآن پاک کے حافظوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو اس جنگ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے بلایا۔ میں ان کی خدمت میں گیا تو وہاں ان کے پاس حضرت عمر بن خطّابؓ بھی تھے۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا: یہ (یعنی حضرت عمر ؓ) میرے پاس آئے اور یوں کہا: اس جنگِ یمامہ میں قرآن کے حافظ بہت زیاد ہ تعداد میں شہید ہوگئے ہیں۔ (ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں چودہ سو صحابہ شہید ہوئے جن میںسے سات سو صحابہ حافظ تھے)۔ مجھے یہ ڈر ہو رہا ہے کہ اگر آیندہ لڑائیوں میں یوں ہی قرآن کے حافظ بڑی تعداد میں شہید ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا، اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ آپ سارا قرآن ایک جگہ لکھوا کر محفوظ کر لیں۔ (اس سے پہلے سارا قرآن حضورﷺ کے زمانہ میں ایک جگہ لکھا ہوا نہیں تھا، بلکہ متفرق صحابہ کے پاس تھوڑا تھوڑا کر کے لکھا ہو ا تھا) میں نے حضرت عمر سے کہا: ہم اس کام کی جرأت کیسے کریں جسے حضورﷺ نے نہیں کیا ہے؟ حضرت عمر نے مجھ سے کہا: یہ کام سراسر خیر ہی خیر ہے۔ حضرت عمر مجھ پر اصرار کرتے رہے اور ضرورت کا اظہار کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی اس کام کے لیے شرح صدر کر دیا جس کے لیے حضرت عمر کا شرح صدر کیا تھا، اور میری رائے بھی حضرت عمر کے موافق ہوگئی۔ حضرت زید کہتے ہیں: اس وقت حضرت عمر حضرت ابو بکر کے پاس خاموش بیٹھے ہوئے تھے کچھ بات نہیں فرما رہے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا: تم جوان ہو، سمجھ دار ہو، تم پر کسی قسم کی بدگمانی بھی ہمیں نہیں، اور تم حضورﷺ کے فرمانے پر وحی لکھا کرتے تھے اس لیے تم ہی سارے قرآن کو ایک جگہ جمع کر دو۔ حضرت زید کہتے ہیں: اللہ کی قسم!