حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مکہ میں کچھ دن رہنے کا ارادہ کرلیا تھا اس لیے وہ مقیم ہو گئے تھے اور چار رکعت نماز پڑھ رہے تھے) اس پر اُن کی خدمت میں کہاگیا کہ ا میر المؤمنین کے جس کام پر آپ اعتراض کر رہے تھے اب آپ خود ہی اسے کر رہے ہیں؟ فرمایا: امیرکی مخالفت کرنا اس سے زیادہ سخت ہے۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ہم لوگوں میں بیان فرمایاتھا تو ارشاد فرمایاتھاکہ میرے بعدبادشاہ ہو گا تم اسے ذلیل نہ کرنا، کیوںکہ جس نے اسے ذلیل کرنے کا ارادہ کیا اس نے اِسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ اور اس شخص کی توبہ اس وقت تک قبول نہ ہوگی جب تک وہ اس سوراخ کو بند نہ کر دے جو اس نے کیا ہے ( یعنی بادشاہ کو ذلیل کر کے اس نے اِسلا م کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی نہ کرلے)۔ اور وہ ایسا کر نہ سکے گا اور (اپنے سابقہ رویہ سے) رجوع کر کے اس بادشاہ کی عزّت کرنے والا نہ بن جائے۔ حضور ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ تین باتوں میں بادشاہوں کو ہم اپنے پر غالب نہ آنے دیں ( یعنی ہم اُن کی عزّت کرتے رہیں، لیکن اُن کی وجہ سے یہ تین کام نہ چھوڑیں): ایک توہم نیکی کا لوگوں کو حکم دیتے رہیں، اور برائی سے روکتے رہیں، اور لوگوں کو سُنّت طریقے سکھاتے رہیں۔ 1 حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیںکہ حضورِ اَقدس ﷺ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ مکہ اور منیٰ میں دو رکعت قصر نماز پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح حضرت عثمان ؓ نے بھی اپنی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں دو ہی رکعت نماز پڑھی، لیکن بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے کہا: إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔(لیکن جب نماز پڑھنے کا وقت آیا) تو انھوں نے کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھی، تو ان سے کہا گیا کہ(چار رکعت کی خبر پر تو) آپ نے إِنَّا لِلّٰہِپڑھی تھی اور خود چار رکعت پڑھ رہے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: امیر کی مخالفت کرنا اس سے زیادہ بُری چیز ہے۔1 حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ تم ویسے ہی فیصلے کرتے رہو جیسے پہلے کیا کرتے تھے، کیوںکہ میں اختلاف کو بہت بری چیز سمجھتا ہو ں۔ یا تو لوگوں کی ایک ہی جماعت رہے یا میں مرجائوں جیسے میرے ساتھی ( حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ بغیراختلافات کے) مر گئے۔ چناںچہ حضرت ابنِ سیرین ؓکی رائے یہ تھی کہ (غلو پسند) لوگ حضرت علی ؓ سے عموماً جو روایات نقل کرتے ہیں وہ غلط ہیں۔2 حضرت سُلیم بن قیس عامری بیان کرتے ہیں: ابنِ کوّاء نے حضرت علی ؓ سے سُنّت اور بدعت اور اِکٹھے رہنے اور بکھر جانے کے بارے میں پوچھا تو حضرت علی نے فرمایا: اے ابنِ کوّاء! تم نے سوال یاد رکھا اب اس کا جواب سمجھ لو۔ اللہ کی قسم! سُنّت تو حضر ت محمد ﷺ کا طریقہ ہے، بدعت وہ کام ہے جو اس طریقہ سے ہٹ کر ہو۔ اور اللہ کی قسم! اہلِ حق کا اکٹھا ہونا