حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ بن اُبیؓ اپنے باپ (ان کا باپ منافقوں کا سردار تھا) پر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے اور اس سے کہا: میں اللہ کے لیے اپنے پر یہ لازم کرتا ہوں کہ یہ تلوار اس وقت نیام میں ڈالوں گا جب تم کہو گے کہ محمد ( ؑ) زیادہ عزّت والے ہیںاور میں زیادہ ذلّت والا ہوں۔ آخر ان کے باپ نے زبان سے کہا: تیرا ناس ہو! محمد ( ؑ) زیادہ عزّت والے ہیں اور میں زیادہ ذلت والا ہوں۔ جب حضورﷺ کو اس واقعہ کی خبر پہنچی توآپ کو یہ بہت پسند آیااور آپ نے ان کی تحسین فرمائی۔2 حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں: حضرت حنظلہ بن ابی عامر اور حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن اُبی بن سلول ؓ نے اپنے اپنے والد کو قتل کرنے کی حضورﷺ سے اجازت مانگی، لیکن حضورﷺ نے منع فرما دیا۔3 حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ نے (بعد میں اپنے والد) حضرت ابو بکر سے کہا: میں نے جنگِ اُحد کے دن آپ کو دیکھ لیا تھا، لیکن میں نے آپ سے اپنا منہ پھیر لیا تھا۔ (باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا) حضرت ابو بکر نے فرمایا: لیکن اگر میں تمھیں دیکھ لیتا تو میں تم سے منہ نہ پھیرتا (بلکہ اللہ کا دشمن سمجھ کر قتل کر دیتا، اس وقت تک حضرت عبد الرحمن مسلمان نہ ہوئے تھے)۔4 حضرت واقدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمنؓ نے جنگِ بدر کے دن مقابلہ کے لیے للکارا (اس دن یہ کافروں کے ساتھ تھے) تو ان کے مقابلہ کے لیے ان کے والد حضرت ابوبکر ؓکھڑے ہوئے۔ تو حضورﷺ نے حضرت ابو بکر سے فرمایا: (تم مقابلہ کے لیے نہ جاؤ) ہم نے ابھی تم سے بہت سے کام لینے ہیں۔1 حضرت ابو عبیدہ اور غزوات کے خوب جاننے والے دیگر حضرات بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّابؓ حضرت سعید بن عاص ؓ کے پاس سے گزرے تو ان سے حضرت عمر نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے دل میں کچھ ہے۔ میرے خیال میں تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے تمہارے باپ (عاص) کو قتل کیا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل کیا ہوتا تو میں اس پر تمہارے سامنے کوئی معذرت پیش نہ کرتا۔ میں نے تو اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا تھا۔ میں تمہارے والد کے پاس سے گزرا تھا وہ (زخمی ہو کر زمین پر پڑا ہوا تھا اور) زمین پر ایسے سر مار رہا تھا جیسے (غصہ میں آکر) بیل زمین پر سینگ مارتا ہے۔ بہرحال میں اس سے کترا کر آگے چلا گیا اور اسے اس کے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ نے قتل کیا ہے۔2 اور ’’اِستیعاب‘‘ اور’’اِصابہ‘‘ میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ حضرت سعید بن عاص ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا: اگر آپ اسے قتل کر دیتے تو (ٹھیک تھا، کیوںکہ) آپ حق پر تھے اور وہ با طل پر تھا۔ حضرت عمر ؓ کو اُن کی یہ بات بہت اچھی لگی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: جنگِ بدر کے دن قتل ہونے والے کافروں کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ ان کو گھسیٹ کر کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ چناںچہ انھیں اس کنوئیں میں پھینک دیا گیا۔ پھر حضورﷺ نے (اس کنوئیں کے