حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ہمارا ایک گھر ہے جہاں ہم جا رہے ہیں اور اسی کے لیے ہم عمل کر رہے ہیں (کہ جتنا مال آتا ہے سب دوسروں کو دے دیتے ہیں تا کہ اگلے گھر یعنی آخرت میں کام آئے)۔ حضرت حسان بن عطیہ ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو الدرداء ؓ کے کچھ ساتھی ان کے مہمان بنے۔ چناںچہ انھوں نے ان کو کھلایا پلایا اور ان کی مہمانی کی، لیکن (گھر میں سامان اور بسترے وغیرہ کم تھے جس کی وجہ سے) کچھ ساتھیوں نے گھوڑے کی پشت پر کاٹھی کے نیچے جو چادر ڈالی جاتی ہے اس پر رات گزاری اور کچھ اپنے کپڑے پر جیسے تھے ویسے ہی لیٹے رہے۔ جب صبح کو حضرت ابو الدرداء ان کے پاس آئے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے یہ مہمان بستروں کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ محسوس کر رہے ہیں۔ تو فرمایا: ہمارا ایک گھر ہے ہم اسی کے لیے جمع کر رہے ہیں اور ہم نے لوٹ کر وہیں جانا ہے (اس لیے جتنا مال آتا ہے سب دوسروں پر خرچ کر دیتے ہیں اپنا کچھ نہیں بناتے ہیں)۔ 2 حضرت محمد بن کعب ؓ فرماتے ہیں: کچھ لوگ سخت سردی کی رات میں حضرت ابو الدرداء ؓ کے مہمان بنے۔ حضرت ابو الدرداء نے ان کے پاس گرم کھانا تو بھیجا، لیکن لحاف نہ بھیجے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا: انھوںنے ہمارے لیے کھانا تو بھیجا لیکن (سردی دور کرنے کا انتظام نہیں کیا اس وجہ سے) اس سخت سردی میں ہمیں کھانا کھانے کا مزا نہ آیا، میں تو حضرت ابو الدرداء کو یہ بات ضرور بتاؤں گا۔ دوسرے نے کہا: چھوڑو، نہ بتاؤ۔ لیکن وہ نہ مانا اور حضرت ابو الدرداء کے پاس چلا گیا۔ جب وہ دروازے پر جا کر کھڑا ہوگیا تو اس نے دیکھا کہ حضرت ابو الدرداء بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی بیوی پر تھوڑے سے ناقابلِ ذکر کپڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا اور حضرت ابو الدرداء سے کہا: میرا خیال ہے یہ رات آپ نے بھی ہماری طرح (لحاف کے بغیر) ہی گزاری ہے۔ حضرت ابو الدرداء نے فرمایا: ہمارا ایک گھر ہے جہاں ہم نے جانا ہے، ہم نے اپنے سارے بستر اور لحاف وہاں پہلے سے بھیج دیے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی چیز تمھیں یہاں ملتی تو ہم اسے تمہارے پاس ضرور بھیج دیتے۔ ہمارے سامنے ایک بہت سخت گھاٹی ہے جس پر چڑھنا بڑا مشکل ہے۔ ہلکا بوجھ لے کر اس میں سے گزرنے والا زیادہ بوجھ والے سے بہتر ہے۔ سمجھ گئے میں تمھیں کیا کہہ رہا ہوں؟ اس نے کہا: جی ہاں، سمجھ گیا ہوں۔1 امیر کے معیارِ زندگی بلند کرنے پر نکیر کے باب میں یہ قصہ گزر چکا ہے کہ حضرت عمرؓ حضرت ابو الدرداء ؓ کے ہاں جانے لگے تو حضرت عمر نے دروازے کو دھکا دیا تو اس کی کنڈی نہیں تھی۔ ہم اندر گئے تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ حضرت عمر اُن کو (اندھیرے کی وجہ سے) ٹٹولنے لگے یہاں تک کہ ان کا ہاتھ ابو الدرداء کو لگ گیا۔ پھر ان کے تکیہ کو ٹٹولا تو وہ پالان کا کمبل تھا۔ پھر ان کے بچھونے کو ٹٹولا تو وہ کنکریاں تھیں۔ پھر ان کے اوپر کے کپڑے کو ٹٹولا تو وہ باریک سی چادر تھی۔