حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرات حضرت حفصہ کے پاس سے چلے آئے۔ پھر حضرت حفصہ حضرت عمر کی خدمت میں گئیں اور نام لیے بغیر ان کی خدمت میں یہ بات پیش کی تو حضرت عمر کے چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوگئے۔ اور انھوں نے پوچھا کہ تمھیں یہ بات کن لوگوں نے کہی ہے؟ حضرت حفصہ نے عرض کیا: پہلے آپ کی رائے معلوم ہوجائے پھر میں آپ کو ان کے نا م بتلا سکتی ہو ں۔ حضرت عمر نے فرمایا: اگر مجھے ان کے نام معلوم ہوجاتے تو میں انھیں ایسی سخت سزا دیتا جس سے ان کے چہروں پر نشان پڑجاتے۔ تم ہی میرے اور ان کے درمیان واسطہ بنی ہو، اس لیے میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم یہ بتاؤ کہ تمہارے گھر میں حضورﷺ کا سب سے عمدہ لباس کو ن سا تھا؟ انھوں نے کہا: گیروے رنگ کے دو کپڑے جنھیں کسی وفد کے آنے پر اور جمعہ کے خطبہ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا: حضورﷺ نے تمہارے ہاں سب سے عمدہ کھانا کون سا کھایا؟ انھوں نے کہا: ایک مرتبہ ہم نے جَو کی ایک روٹی پکائی، پھر اس گرم گرم روٹی پر گھی کے ڈبے کی تلچھٹ اُلٹ کر اسے چپڑ دیا، جس سے وہ روٹی خوب چکنی چپڑی اور نرم ہوگئی پھر حضورﷺ نے خوب مزے لے کر اسے نوش فرمایا اور وہ روٹی آپ کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پھر حضرت عمر نے پوچھا: حضورﷺ کا تمہا رے ہاں سب سے زیادہ نرم بستر کون سا تھا؟ انھوں نے کہا: ہمارا ایک مو ٹا سا کپڑا تھا گرمی میں اس کو چوہرا کر کے بچھا لیتے تھے اور سردی میں آدھے کو بچھا لیتے اور آدھے کو اوڑھ لیتے۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا: اے حفصہ! ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دو کہ حضورﷺ نے اپنے طرزِ عمل سے ہر چیز میں ایک اندازہ مقرر فرمایا ہے اور ضرورت سے زائد چیزوں کو اپنی اپنی جگہوں میں رکھا ہے (اور ان میں نہیں لگے) اور کم سے کم پر گزارہ کیا ہے۔ میں نے بھی ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا ہے۔ اوراللہ کی قسم! ضرورت سے زائد چیزوں کو ان کی جگہو ں میں رکھوں گا اور میں بھی کم سے کم پر گزارہ کروں گا۔ میری اور میرے دو ساتھیوں کی مثال ان تین آدمیوں کی سی ہے جو ایک راستہ پر چلے۔ان میں سے پہلا آدمی توشہ لے کر چلا اور منزلِ مقصود تک پہنچ گیا، پھر دوسرے نے بھی اسی کا اتباع کیا اور اسی کے راستہ پر چلا تو وہ بھی اسی منزل تک پہنچ گیا، پھر تیسرے آدمی نے بھی اسی پہلے کا اتباع کیا۔ اگر وہ ان دونوںکے راستہ کا خود کو پابند بنائے گا اور ان جیسا توشہ رکھے گا تو ان کے ساتھ جا ملے گا اور ان کے ساتھ رہا کرے گا، اور اگر وہ ان دونوں کے راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے گا تو (کبھی بھی ان کے ساتھ نہیں مل سکے گا)۔1 حضرت حسن بصری ؓ کہتے ہیں: بصرہ کی جامع مسجد میں ایک مجلس لگی ہوئی تھی۔ میں ان کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ حضورﷺ کے چند صحابہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کے زہد، حسنِ سیرت، اسلام اور ان دینی فضائل کا تذکرہ کر رہے ہیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے تھے۔ میں ان لوگوں کے بالکل قریب چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ حضرت اَحنف بن قیس