حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوں)۔2 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ کامعمول یہ تھا کہ وہ جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو لوگوں کی خاطر بیٹھ جاتے۔ جس کو کوئی ضروت ہوتی تو وہ ان سے بات کرلیتا، اور اگر کسی کو کوئی ضروت نہ ہوتی تو کھڑے ہوجاتے۔ ایک مر تبہ انھوں نے لوگوں کو بہت سی نمازیں پڑھا ئیں، لیکن کسی نماز کے بعد بیٹھے نہیں۔ میں نے (ان کے دربان سے) کہا: اے یرفا! کیا امیرالمؤمنین کو کوئی تکلیف یا بیماری ہے؟ اس نے کہا: نہیں،ا میر المؤمنین کو کوئی تکلیف یا بیماری نہیں ہے۔ میں وہیںبیٹھ گیا۔ اتنے میں حضرت عثمان بن عفا ن ؓ بھی تشریف لے آئے، وہ بھی آکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں یرفا باہر آیا اور اس نے کہا: اے ابنِ عفان! اے ابنِ عباس! آپ دونوں اندر تشریف لے چلیں۔ چناںچہ ہم دونوں حضرت عمر کے پاس اندر گئے۔ وہاں ہم نے دیکھا کہ حضرت عمر کے سامنے مال کے بہت سے ڈھیر رکھے ہوئے ہیں اور ہر ڈھیر پر کندھے کی ہڈی رکھی ہوئی تھی (جس پر کچھ لکھا ہو ا تھا۔ اس زمانے میں کاغذ کی کمی کی وجہ سے ہڈیوں پر بھی لکھا جاتا تھا) حضرت عمر نے فرمایا: میں نے تمام اہلِ مدینہ پر نگاہ ڈالی تو تم دونوں ہی مجھے مدینہ میں سب سے بڑے خاندان والے نظر آئے ہو۔ یہ مال لے جاؤ اور آپس میں تقسیم کرلو، اور جو بچ جائے وہ واپس کر دینا۔ حضرت عثمان نے تو لپ بھر کر لینا شروع کر دیا، لیکن میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا کہ اگر کم پڑگیا تو آپ ہمیں اور دیں گے؟ حضرت عمر نے فرمایا: ہے نا پہاڑ کا ایک ٹکڑا۔ یعنی ہے نا اپنے باپ عبا س کا بیٹا (کہ ان کی ہی طرح جری، سمجھ دار اور ہوشیار) ہے۔ کیا یہ مال اس وقت اللہ کے پاس نہیں تھا جب حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ ؓ (فقر وفاقہ کی وجہ سے) کھال کھایا کرتے تھے؟ میں نے کہا تھا: اللہ کی قسم! جب حضرت محمد ﷺ زندہ تھے تو یہ سب کچھ اللہ کے پاس تھا، لیکن اگر اللہ ان کو یہ سب کچھ دیتے تو وہ کسی اور طرح تقسیم کرتے، جس طرح آپ کرتے ہیں اس طرح نہ کرتے۔ اس پر حضرت عمر کو غصہ آگیا اور فرمایا: اچھا! کس طرح تقسیم کرتے؟ میں نے کہا: خود بھی کھاتے اور ہمیں بھی کھلاتے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمر اونچی آواز سے رونے لگ پڑے جس سے ان کی پسلیاں زور زور سے ہلنے لگیں۔ پھر فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اس خلافت سے برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ اس پر مجھے کچھ انعام ملے اور نہ میری پکڑ ہو۔1 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے مجھے بلایا، میں ان کی خدمت میںگیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کے سامنے چمڑے کے دستر خوان پر سونا بکھر ا پڑا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: آؤ اور یہ سونا اپنی قوم میں تقسیم کر دو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سونا اور مال اپنے نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ سے دور رکھا اور مجھے دے رہے ہیں۔ اب اللہ ہی زیادہ جانتے ہیںکہ مجھے یہ مال خیر کی وجہ سے دیا جا رہا ہے یا شر کی وجہ سے۔ پھر فرمایا: نہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور