حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ کے حضرت زبیر کے ذمہ چار لاکھ درہم تھے۔ انھوں نے مجھ سے آکر کہا: اگر تم کہو تو میں تمہاری خاطر یہ قرضہ چھوڑ دیتا ہوں؟ میں نے کہا: نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر انھوں نے کہا: اگر تم چاہو تو میرا قرضہ آخر میں ادا کر دینا۔ میں نے کہا: نہیں، آپ ابھی لے لیں۔ انھوں نے کہا: اچھا، پھر مجھے اس زمین سے میرے قرضے کے بقدر ٹکڑا دے دو۔ میں نے کہا: یہاں سے لے کر وہاں تک آپ کی زمین ہے۔ چناںچہ غابہ کی زمین (اور حضرت زبیرؓ کے گھروں) کو بیچ بیچ کر میں قرضہ اد ا کرتا رہا یہاں تک کہ سارا قرضہ ادا ہوگیا اور غابہ کی زمین (کے سولہ حصوں) میں سے ساڑھے چار حصے بچ گئے۔ میں بعد میں حضرتِ معاویہ ؓ (کے زمانۂ خلافت) میں ان کے پاس گیا۔ اس وقت ان کے پاس حضرت عمرو بن عثمان، حضرت منذربن زبیر اور حضرت ابنِ زَمْعَہؓ بھی تھے۔ حضرت معاویہ نے مجھ سے فرمایا: تم نے غابہ کی زمین کی کیا قیمت لگائی؟ میں نے کہا: (اس کے سولہ حصے کیے تھے اور) ہر حصہ ایک لاکھ کا بنا تھا۔ حضرت معاویہ نے پوچھا: اب کتنے حصے باقی ہیں؟ میں نے کہا: ساڑھے چار حصے۔ حضرت منذر بن زبیر نے کہا: ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں خرید لیا۔ پھر حضرت عمرو بن عثمان نے کہا: ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں خرید لیا۔ پھر حضرت ابنِ زَمْعَہ نے کہا: ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں خرید لیا۔ حضرت معاویہ نے پوچھا: اب کتنے حصے رہ گئے؟ میں نے کہا: ڈیڑھ۔ انھوں نے کہا: ڈیڑھ لاکھ میںمیںنے اسے خرید لیا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر نے اپنا حصہ حضرت معاویہ کے ہاتھ چھ لاکھ میں بیچا۔ جب میں حضرت زبیرکے قرضے کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو حضرت زبیر کی اولاد یعنی میرے بہن بھائیوں نے کہا: اب میراث ہمارے درمیان تقسیم کر دیں۔ میں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں تم لوگوں کے درمیان میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کروں گا جب تک میں چار سال موسمِ حج میں یہ اعلان نہیں کرلیتا کہ جس کا حضرت زبیرکے ذمہ کوئی قرضہ ہو وہ ہمارے پاس آجائے ہم اس کا قرضہ ادا کریں گے۔ چناںچہ میں ہر سال موسمِ حج میں یہ اعلان کرتا رہا۔ جب چار سال گزر گئے تو پھر میں نے ان کے درمیان میراث تقسیم کی۔ حضرت زبیر کی چار بیویاں تھیں۔ حضرت زبیر نے ایک تہائی مال کی وصیت کی تھی۔ وہ تہائی مال دینے کے بعد ہر بیوی کو بارہ لاکھ ملے، لہٰذا ان کا سارا مال پانچ کروڑ دو لاکھ ہوا۔1 ’’البدایۃ‘‘ میں علامہ ابنِ کثیر ؓ نے فرمایاہے کہ ورثا میں جو مال تقسیم ہوا وہ تین کروڑ چوراسی لاکھ تھا، اور ایک تہائی کی جو وصیت کی تھی وہ ایک کروڑ بانوے لاکھ تھا۔ لہٰذا یہ میراث اور ایک تہائی مل کر پانچ کروڑ چھہتّر لاکھ ہوا۔ اور پہلے جو قرضہ ادا کیا گیا وہ بائیس لاکھ تھا۔ اس حساب سے قرض ایک تہائی اور میراث مل کر کل مال پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ ہوا۔ یہ تفصیل ہم نے اس لیے بتائی ہے کہ ’’بخاری‘‘ میں جو مال کی تفصیل ہے اس میں اشکال ہے اس لیے اس کی تفصیل بتانا