حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زبیرکی اولاد کو دے دیاجائے (کیوںکہ حضرت عبد اللہ کے بچے بڑے تھے، بلکہ ان کی شادیاں بھی ہوچکی تھیں)۔ چناںچہ حضرت عبد اللہ کے کچھ بیٹے حضرت خبیب اور حضرت عبّاد (عمر میں یا مال کے حصہ میں) حضرت زبیر کے بعض بیٹوں کے برابر تھے، اور خود حضرت زبیرکے نو بیٹے اور نو بیٹیاں تھیں۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں: حضرت زبیر نے مجھے اپنے قرضے کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر میرے قرض کی ادائیگی میں کچھ مشکل پیش آئے تو میرے مولیٰ سے مدد لے لینا۔ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھ نہ سکا کہ مولیٰ سے ان کی مراد کون ہے؟ اس لیے میں نے پوچھا: ابّا جان! آپ کے مولیٰ کون ہیں؟ انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ۔ چناںچہ حضرت عبد اللہ کہتے ہیں: جب بھی مجھے ان کے قرضے کے بارے میں کوئی مشکل پیش آتی تو میں کہتا: اے زبیر کے مولیٰ! زبیر کا قرضہ ادا کر ادیں۔ اللہ تعالیٰ فوراً اس کا انتظام فرما دیتے۔ چناںچہ حضرت زبیر اس دن شہید ہوگئے۔ انھوں نے تر کہ میں کوئی دینا ر یا درہم نہ چھوڑا۔ البتہ چند زمینیں، مدینہ میں گیا رہ گھر، بصر ہ میں دو گھر، کوفہ میں ایک گھر اور مصر میں ایک گھر چھوڑا۔ ان چند زمینوں میں سے ایک زمین (مدینہ سے چند میل دور) غابہ کی تھی۔ حضرت زبیر پر اتنا قرضہ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے پاس جو آدمی اپنا مال بطور امانت رکھوانے آتا اس سے فرماتے: میرے پاس امانت نہ رکھو اؤ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں ضائع نہ ہوجائے، اس لیے مجھے قرض دے دو (جب ضرورت ہو لے لینا۔ اور لوگو ں سے لے کر دوسروں پر خرچ کر دیتے) حضرت زبیر نہ کبھی امیر بنے اور نہ کبھی خراج، زکوٰۃ وغیرہ وصول کر نے کی ذمہ داری لی۔ البتہ حضورﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے رہے (اور ان غزوات سے جو مالِ غنیمت ملا اس سے ان کی اتنی جائیداد ہوگئی تھی)۔ بہر حال میں نے اپنے والد کے قرض کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ نکلا۔ ایک دن حضرت حکیم بن حزام ؓ مجھ سے ملے۔ انھوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! میرے بھائی (حضرت زبیر) پر کتنا قرض ہے؟ میں نے چھپا تے ہوئے کہا: ایک لاکھ۔ (جتنا بتایا اس میں تو سچے ہیں) حضرت حکیم نے کہا: اللہ کی قسم! میرے خیال میں تو تمہارا سارا مال اس قرضہ کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ میں نے کہا: اگر بائیس لاکھ قرض ہو تو پھر؟ انھوں نے کہا: میرے خیال میں توتم اسے ادا نہیں کر سکتے، اس لیے اگر تمھیں قرضہ کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو مجھ سے مدد لے لینا۔ حضرت زبیر نے غابہ کی زمین ایک لاکھ ستّر ہزار میں خریدی تھی۔ میں نے اس کی قیمت لگوائی تو سو لہ لاکھ قیمت لگی۔ (میں نے اس زمین کے سولہ حصے بنائے تھے ایک حصہ کی قیمت ایک لاکھ لگی) پھر میں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا: جس کا حضرت زبیرکے ذمہ کوئی حق ہو وہ ہمیں غابہ میں آکر مل لے۔