حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی قسم! کل کو پیش آنے والی ضرورت کے لیے میں آج اللہ کی نافر مانی نہیں کر سکتا۔ نہیں (میں مال جمع کر کے نہیں رکھ سکتا بلکہ) میں تو مسلما نوں (کی ضرورتوں) کے لیے وہ کچھ تیار کر کے رکھوں گا جو حضور ﷺ نے تیا ر کیا تھا۔ (اور وہ ہے اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت اور تقویٰ، اور تقویٰ مال جمع کرنا نہیںہے بلکہ مال دوسروں پر خرچ کرنا ہے) 2 حضرت سَلَمَہ بن سعید ؓ کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ کے پاس بہت سارا مال لا یا گیا تو حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کھڑے ہو کر کہا: اے امیر المؤمنین! مسلمانوں پر کوئی ناگہانی مصیبت آجاتی ہے یا اچانک کوئی ضرورت پیش آجاتی ہے اس کے لیے اس مال میں سے کچھ بچا کر آپ بیت المال میں رکھ لیں تو بہت اچھا ہوگا۔ حضرت عمر نے فرمایا: تم نے ایسی بات کہی ہے جو شیطان ہی سامنے لاسکتا ہے۔ اللہ نے مجھے اس کا جواب سمجھا یا ہے اور اس کے فتنہ سے بچا لیا ہے۔ آیندہ سال (کی ضروریات) کے ڈر سے میںاس سال اللہ کی نافرمانی کروں؟ میں نے مسلمانوں (کی ضروریات) کے لیے اللہ کا تقویٰ تیار کیا ہواہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا o وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ}1 اور جو شخص اللہ سے ڈر تا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچا تا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ البتہ شیطان کی یہ بات میرے بعد والوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔2 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حضرت ابو موسیٰ ؓ کو یہ خط لکھا: اَما بعد! میں یہ چاہتا ہوں کہ سال میں ایک دن ایسا بھی ہو کہ بیت المال میں ایک درہم بھی باقی نہ رہے، اور اس میں سے سارا مال نکال کر تقسیم کر دیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ بات کھل کر آجائے کہ میں نے ہر حق و الے کواس کا حق دے دیا ہے۔3 حضرت حسن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت حذیفہ ؓ کو یہ لکھا کہ لوگوں کو ان کے عطایا اور ان کے مقررہ وظیفے سب دے دو۔ حضرت حذیفہ نے جواب میں لکھا: ہم سب کچھ دے چکے ہیں لیکن پھر بھی بہت سا مال بچا ہوا ہے۔ حضرت عمر نے انھیں جو اب میں لکھا: یہ مالِ غنیمت مسلما نوں کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہے، یہ عمر یا اس کی آل اولاد کا نہیں ہے، اس لیے اسے بھی مسلمانوں میں ہی تقسیم کردو۔4 حضرت علی بن ربیعہ والبی ؓ کہتے ہیں: ابنِ نبّاج نے حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: اے امیر المؤمنین! مسلمانوں کا بیت المال سونے چاندی سے بھر گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا: اَللّٰہُ أَکْبَرُ! اور ابنِ نبّاج پر ٹیک لگاکر کھڑے ہو ئے اور مسلمانوں کے بیت المال میں پہنچے اور یہ شعر پڑھا: ھٰذَا جَنَايَ وَخِیَارُہٗ فِیْہِ