حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جائے گا اور آپ سے پوچھا جائے گا۔ اور آپ کو امین بنایا گیا ہے، لہٰذا آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ امانت کی اس ذمہ داری کو پورے اہتمام سے اد ا کریں اور آپ کو آپ کے اعمال کے مطابق (اللہ کی طرف سے) اَجر دیا جائے گا۔ حضرت عمر نے کہا: جب سے میں خلیفہ بنا ہوں تمہارے علاوہ کسی نے بھی مجھے ایسی صاف اور صحیح بات نہیںکہی ہے، تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں ربیع بن زیاد ہوں۔ حضرت عمر نے کہا: حضرت مہاجر بن زیاد کے بھائی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ پھرحضرت عمر نے ایک لشکر تیار کیا اور حضرت (ابو موسیٰ) اَشعری ؓ کو اس کا امیر بنایا اور ان سے فرمایا کہ رَبیع بن زیاد کو اہتمام سے دیکھنا، اگر یہ اپنی بات میں سچا نکلا (اس پر خود بھی عمل کیا) تو وہ اس اَمارت کی ذمہ داریوں میں تمہاری خوب مدد کرے گا اس لیے انھیں (بوقتِ ضرورت کسی جماعت کا ) امیر بنادینا۔ پھر ہر دس دن کے بعد ان کے کام کی دیکھ بھال کرتے رہنا اور ان کے کام کرنے کے طریقے کو مجھے اس تفصیل سے لکھنا کہ مجھے یوں لگے کہ جیسے میں نے خود ان کو امیر بنایا ہو۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا: حضور ﷺ نے ہمیں نصیحت کی تھی اور فرمایاتھا: مجھے اپنے بعد تم پر سب سے زیادہ خوف اس منافق کا ہے جو باتیں کرنے کا خوب ماہر ہو (یعنی دل تو کھوٹا ہو لیکن زبان سے بڑی اچھی باتیں خوب بناتا ہو)۔1 حضرت محمد بن سُوقہ ؓ کہتے ہیں: میں حضرت نعیم ابن ابی ہند ؓ کے پاس آیا۔ انھوں نے ایک پرچہ مجھے نکال کر دیا جس میں یہ لکھا ہوا تھا : ابو عبیدہ بن جرّ اح اور معاذ بن جَبَل کی طرف سے عمر بن خطّاب کے نام۔ سَلَامٌ عَلَیْکَ۔ اَمابعد! ہم تو شروع سے ہی آپ کو دیکھ رہے ہیںکہ آپ کو اپنے نفس کی اصلاح کا بہت اہتمام ہے، اور اب تو آپ پر کالے اور گورے یعنی عرب وعجم تمام افرادِ اُمت کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ آپ کی مجلس میں بڑے مرتبہ والے اور کم مرتبہ والے، دوست دشمن ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو عدل میں سے اس کا حصہ ملنا چاہیے۔ اے عمر! آپ دیکھ لیں کہ آپ ان کے ساتھ کیسے چل رہے ہیں؟ ہم آپ کو اس دن سے ڈراتے ہیں جس دن تمام چہرے جھکے ہوئے ہوں گے، اور دل (خوف کے مارے) خشک ہوجائیں گے، اور اس بادشاہ کی دلیل کے سامنے تمام (انسانوں کی) دلیلیں فیل ہوجائیں گی جو اپنی کبریائی کی وجہ سے ان پر غالب اور زور آور ہوگا۔ اور ساری مخلوق اس کے سامنے ذلیل ہوگی، سب اس کی رحمت کی امید کر رہے ہوں گے اور اس کی سزا سے ڈر رہے ہوں گے۔ ہم آپس میں یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ اس اُمت کا آخر زمانہ میں اتنا برا حال ہوجائے گا کہ لوگ اوپر سے دوست ہوں گے اور اندر سے دشمن۔ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیںکہ ہم نے آپ کو یہ خط جس دِلی ہمدردی کے ساتھ لکھا آپ اس کے علاوہ کچھ اور سمجھیں۔ کیوںکہ ہم نے یہ خط صرف آپ کی خیرخواہی کے جذبے سے لکھا ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ۔ جواب میں حضرت عمر ؓ نے ان دونوں حضرات کو یہ خط لکھا: عمر بن خطّاب کی طرف سے ابو عبیدہ اور معاذ کے نام۔سَلَامٌ عَلَیْکُمَا۔ اَما بعد!مجھے آپ دونوں کا خط ملا جس میں آپ نے لکھا کہ آپ دونوں مجھے شروع سے دیکھ رہے ہیںکہ مجھے اپنے نفس کی اصلاح کا بہت اہتمام