حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن ؓکہتے ہیں: حضرت عثمان ؓ کا باغیوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ اتنے میں حضرت ابو قتادہ ؓ اور ایک اورصاحب ان کے ساتھ حضرت عثمان کے پاس ان کے گھر گئے۔ دونوں نے حضرت عثمان سے حج کی اجازت مانگی، انھوں نے حج کی اجازت دے دی۔ ان دونوں نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ اگر یہ باغی لوگ غالب آگئے تو ہم کس کا ساتھ دیں؟ حضرت عثمان نے فرمایا: مسلمانوں کی عام جماعت کا ساتھ دینا۔ انھوں نے پوچھا: اگر غالب آکریہ باغی ہی مسلمانوں کی جماعت بنالیںتو پھر ہم کس کا ساتھ دیں؟ حضرت عثمان نے کہا: مسلمانوں کی عام جماعت کا ہی ساتھ دینا وہ جماعت جن کی بھی ہو۔ راوی کہتے ہیں: ہم باہر نکلنے لگے تو ہمیں گھر کے دروازے پر حضرت حسن بن علی ؓ سامنے سے آتے ہوئے ملے جو حضرت عثمان کے پاس جارہے تھے۔ تو ہم ان کے ساتھ واپس ہوگئے کہ سنیں کہ یہ حضرت عثمان سے کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے حضرت عثمان کو سلام کر کے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اس پر حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! واپس چلے جاؤ اور اپنے گھر بیٹھ جاؤ،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں اسے وجود میں لے آئیں۔ چناںچہ حضرت حسن بھی اور ہم بھی حضرت عثمان کے پاس سے باہر آگئے تو ہمیں سامنے سے حضرت عبد اللہ بن عمر آتے ہوئے ملے۔ وہ حضرت عثمان کے پاس جارہے تھے توہم بھی ان کے ساتھ واپس ہوگئے کہ سنیں یہ کیا کہتے ہیں؟ چناںچہ انھوں نے جاکر حضرت عثمان کو سلام کیا اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین! میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا اور ان کی ہر بات مانتا رہا، پھر میں حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ رہا اور ان کی پوری طرح فرماںبرداری کی، پھر میں حضرت عمرؓ کے ساتھ رہا اور ان کی ہر بات مانتا رہا، اور میں ان کا اپنے اوپر دوہرا حق سمجھتا تھا۔ ایک والد ہونے کی وجہ سے اور ایک خلیفہ ہونے کی وجہ سے۔ اور اب میں آپ کا پوری طرح فرماں بردار ہوں آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں (میں اسے اِن شاء اللہ ضرورکروں گا)۔ اس پر حضرت عثمان نے فرمایا: اے آلِ عمر! اللہ تعالیٰ تمہیں دُگنی جزائے خیر عطا فرمائے! مجھے کسی کے خون بہانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے کسی کا خون بہانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔1 حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: میں بھی حضرت عثمان ؓ کے ساتھ گھر میں محصور تھا۔ ہمارے ایک آدمی کو (باغیوں کی طرف سے) تیر مارا گیا، اس پر میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! چوںکہ انھوں نے ہمارا ایک آدمی قتل کر دیا ہے اس لیے اب ان سے جنگ کرنا ہمارے لیے جائز ہوگیا ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا: اے ابوہریرہ! میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ اپنی تلوار پھینک دو۔ وہ لوگ تو میری جان لینا چاہتے ہیں، اس لیے میں