حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابو تمیم جیشانی ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ نے حضرت عمر و بن عاص ؓ کو یہ خط لکھا: اَما بعد! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم نے ایک منبر بنایا ہے۔ (جب تم) اس پر (بیان کرتے ہو تو) تم لوگوں کی گردنوں سے بلند ہو جاتے ہو۔ کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ تم (زمین پر) کھڑے ہو کر بیان کرو۔ اس طرح مسلمان تمہاری ایڑیوں کے نیچے ہوں گے۔ میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم اسے توڑ دو۔ 4 حضرت ابو عثمان ؓ فرماتے ہیں: ہم لوگ آذر بائیجان میں تھے۔ وہاں حضرت عمر ؓ نے ہمیں یہ خط لکھا: اے عتبہ بن فرقد! یہ ملک و مال تمہیں تمہاری محنت سے نہیں ملا، اور نہ ہی تمہارے ماں باپ کی محنت سے ملا ہے۔ اس لیے تم اپنے گھر میں جو چیز پیٹ بھر کر کھاتے ہو وہی چیز سارے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں پیٹ بھر کر کھلائو، اور ناز و نعمت کی زندگی سے اور مشرکین جیسی ہیئت اختیارکرنے سے اورریشم پہننے سے بچو۔1 حضرت عروہ بن رُوَیم ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ لوگوں کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ان کے پاس سے حمص کے لو گ گزرے۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا: تمہارے امیر (حضرت عبد اللہ بن قرط ؓ) کیسے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: بہترین امیر ہیں، بس ایک بات ہے کہ انھوںنے ایک بالاخانہ بنا لیا ہے جس میں رہتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے اس امیر کو خط لکھا اور اپنا قاصد بھی ساتھ بھیجا اور اس قاصد کو حکم دیا کہ وہا ں جاکر اس بالاخانہ کو جلا دے۔ جب وہ قاصد وہاں پہنچا تو اس نے لکڑیاں جمع کرکے اس بالاخانہ کے دروازے کو آگ لگا دی۔ جب یہ بات اس امیر کو بتائی گئی تو اس نے کہا: اسے کچھ مت کہو، یہ (امیر المؤمنین کا بھیجا ہوا) قاصد ہے۔ پھر اس قاصد نے ان کو (حضرت عمر) کا خط دیا۔ وہ خط پڑھتے ہی سوار ہو کر حضرت عمر کی طرف چل دیے۔ جب حضرت عمر نے ان کو دیکھا تو ان سے فرمایا: (مدینہ سے باہر پتھریلے میدان) حَرَّہ میں میر ے پاس پہنچ جاؤ۔ حرّہ میں صدقہ کے اونٹ تھے۔ (جب وہ حَرَّہ حضرت عمر کے پاس پہنچ گئے تو ان سے) حضرت عمر نے فرمایا: اپنے کپڑے اُتار دو۔ (انھوں نے کپڑے اُتار دیے) حضرت عمر نے ان کو اونٹ کے اُون کی چادر پہننے کے لیے دی (جسے انھوں نے پہن لیا)۔ پھر ان سے فرمایا: (اس کنوئیں سے) پانی نکالو اور ان اونٹوں کو پانی پلاؤ۔ وہ یوں ہی ہاتھ سے کنوئیں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ تھک گئے۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا: دنیا میں اور کتنا عرصہ رہو گے؟ انھوں نے کہا: بس تھوڑا ہی عرصہ۔ فرمایا: بس اس (مختصر سی زندگی) کے لیے تم نے وہ بالاخانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے تم مسکین، بیوہ اور یتیم انسانوں (کی پہنچ) سے اوپر ہوگئے تھے۔ جاؤ اپنے کام پر واپس جاؤ اور آیندہ ایسا نہ کرنا۔1 حضرت عَتَّاب بن رِفَاعہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کو یہ خبر ملی کہ حضرت سعد ؓ نے ایک محل بنوایا ہے اور ا س پر دروازہ بھی لگوایا ہے اور یہ بھی کہاہے کہ اب (بازار کا) شور آنا ختم ہوگیا ہے۔ (یہ محل انھوں نے اسی وجہ سے بنایا تھا کہ بازار کی