ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
میں اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے ۔ اس کا تعلق غیر اختیاری امور سے ہے ، اختیاری امور کا حکم اس سے مختلف یہ ہے کہ ان میں جدو جہد کر کے آ گے بڑھنے کی فکر کرو ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے : سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃ عرضھا السموات و الارض یعنی آ گے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ اللہ تعالی کی مغفرت اور جنت کی طرف جس کا عرض تمام آسمانوں اور زمینوں پر محیط ہے ۔ حضرت موسی اور حضرؑ کے واقعہ پر چند اشکالات اور لطیف جواب 26 : فرمایا کہ قرآن کریم میں جو حضرت موسیؑ کا جو حضرت خضرؑ کے پاس بغرض تکمیل علم کے سفر کرنا مذکور ہے ۔ اس میں حضرت خضر نے موسیؑ سے پہلے ہی یہ عدہ لے لیا تھا کہ وہ انکے کسی کام پر ٹوکیں گے نہیں ۔ پھر حضرت موسیؑ اس وعدہ پر کیوں قائم نہ رہے کہ بار بار ان کے کاموں پر ٹوکا ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا اس صورت میں واجب ہے کہ اس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو ۔ خلاف شرع تو وعدہ توڑنا لازم ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ایسا وعدہ جس کے خلاف کرنے پر دوسرے فریق کا کوئی ضرر اور نقصان نہ ہو اس کا ایفاء بھی واجب نہیں ہوتا ۔ تین واقعے جن پر حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کو ٹوکا ۔ ان میں ایک واقعہ تو ظاہر شرع کے بالکل خلاف تھا کہ لڑکے کو قتل کر دیا ۔ اور دو اور واقعے ۔ کشتی توڑنے کا اور دیوار سیدھا کرنے کا گو خلاف شرع اور نا جائز نہ تھے مگر حالات کے تابع خلاف استحباب و مروت تھے پیغمبر ان چیزوں پر صبر نہیں کر سکتے اور نہ کرنا چاہیے اس لئے مجبور ہو کر ٹوکا ۔ خصوصا یہ بھی معلوم تھا کہ ان چیزوں پر ٹوکنے میں حضرت خضرؑ کو کوئی ضرر اور نقصان نہیں ۔ ( انتہی ) یہاں دو یا تین ادب شریعت کے متعلق اور قابل نظر ہیں اول تو یہ کہ شروع میں حضرت موسی ؑ