ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ یعنی خطا اور نسیان میں کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ آیت مذکورہ میں خطا و نسیان پر مواخذہ نہ کرنے کی دعا پر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ جب رسول اللہؐ کے بیان کے مطابق خطا و نسیان کا گناہ معاف ہو چکا تو پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے ؟ مولانا رومیؒ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خطا و نسیان کا گناہ اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دیا مگر دراصل وہ فعل مواخذہ ہے کیونکہ اس سے بچنا ایک حیثیت سے اختیار میں داخل ہے یعنی اس سے بچنے کے اسباب اختیاریہ میں کوتاہی نہ کرے ۔ ایک اہم وصیت ارشاد فرمایا کہ میری یہ وصیت ہے کہ بزرگوں کے نظم و کلام سے کسی مسئلہ پر استدلال کرنا ہرگز مناسب نہیں ۔ کیونکہ شعر میں اکثر معانی الفاظ میں تابع ہو جاتے ہیں ۔ پہلے سے جو مسئلہ معلوم تھا اس پر اس کو منطبق کر لینا تو درست ہے لیکن اس سے کوئی مستقل مسئلہ نکالنا درست نہیں ۔ مولانا رومیؒ نے فرمایا ہے ؎ معنی اندر شعر جزء باخبط نیست چوں غلاسنگ ست او را ضبط نیست حضرت شاہ اسحق صاحب دہلویؒ اور ان کے بھائی شاہ یعقوبؒ ان کی عادت تھی کہ جو ان کو کسی سے سفارش کرنے کے لئے کہتا تو فورا سفارش کر دیتے تھے اور ان کے بھائی شاہ یعقوب کسی کی سفارش نہ کرتے تھے ۔ شاہ اسحق صاحب پر خلق خدا کی نفع رسانی کا غلبہ تھا اور شاہ یعقوب یہ کہتے تھے کہ سفارش کرنا بیشک مستحب ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ جس سے سفارش کی جاتی ہے بسا اوقات اس کو تکلیف ہوتی ہے اور مومن کو تکلیف و ایذا سے بچانا واجب ہے اس لئے میں بمقابلہ واجب مستحب کی فکر نہیں کرتا ۔ حضرت شاہ اسحق صاحبؒ سے ایک صاحب ملنے آئے اور آپ سے ایک ایسے شخص کے پاس سفارش کرنے کی درخواست کی جو شاہ صاحب کا مخالف تھا ۔ شاہ صاحب نے فورا سفارش لکھدی ۔ جب وہ شفارش شاہ صاحب کا خط لیکر اس کے پہنچا تو اس گستاخی نے اس خط کو موڑ کر ایک بتی