ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
مجالس حکیم الامت کاپی 7 اس سے شدید تکلیف کی شکایت کی تو حضرت نے آیت قرآن " قیل یا ارض ابلعی ماء ک ویا سماء اقلعی و عیض الماء کاغذ پر لکھ کر دے دیں کہ اس پر بندھوا دیں ۔ اللہ تعالی نے تکلیف دور فرما دی ۔ اہل اللہ پر جوش تقریروں کے عادی نہیں ہوتے ، اس کی وجہ فرمایا کہ جس شخص کو معرفت حق کا مقام حاصل ہو جاتا ہے اس کے نزدیک نظریات بھی بدیہیات بن جاتے ہیں ۔ اور بد یہی امور کے بیان کا کوئی آدمی خاص اہتمام نہیں کیا کرتا ۔ نصف النہار کے وقت آفتاب کا وجود ثابت کرنے کے لئے کوئی پر جوش تقریر نہیں کی جا سکتی ۔ اسی حالت کے متعلق صوفیہ کرام نے فرمایا ہے ۔ من عرف اللہ کل لسانہ یعنی ،، جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے اس کی زبان گو یائی سے تھک جاتی ہے ۔ ایک حدیث میں جو ارشاد ہے ۔ الحیاء و العی من الایمان یعنی ،، حیا اور کلام سے عاجز ہونا ایمان میں سے ہے ۔ اس کا مفہوم بھی کلام اور تقریر سے وہ عجز ہے جو معرفت حق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ نا اہلیت اور جہل کی وجہ سے جو عجز ہوتا ہے وہ مراد نہیں ۔ کیونکہ وہ ایمان کا شعبہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ شرعا مذموم ۔ اس پر فرمایا کہ حافظ شیرازی کا مشہور شعر ہے : کجا دا نند حال ما سبکسا ران ساحلہا ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دریا کے پہلے کنارے پر کھڑے ہیں دریاء کو عبور نہیں کر سکے اور جو لوگ دریا کو عبور کر کے اس کی مشکلات کو حل کر کے دوسرے کنارے پر پہنچے ہوئے ہیں اگرچہ وہ بھی دریا کے کنارے ہی پر کھڑے ہیں مگر ان دونوں میں بڑا فرق ہے ان کے متعلق " کجا دا نند ،، نہیں کہا جا سکتا وہ سب کچھ جانتے ہیں مگر صورت کے اعتبار سے دو کناروں پر کھڑۓ ہوئے یکساں نظر