ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
جملے کی یہ ہے ولو اسمعھم مع عدم علم الخیر لتولوا یعنی اگر اللہ تعالی یہ جانتے ہوئے کہ ان کو حق بات سنانا مفید نہیں ہو گا پھر بھی سنائیں تو وہ سننے کے باوجود منہ پھیر کر بھاگے لیکن جیسے آیت ولو شاء اللہ ما اشرکنا جو اہل جہنم بطور عذر کے کہیں گے یہ غلط ہو ہو گا اور تقریبا یہی الفاظ دوسری جگہ اللہ تعالی کے طرف سے آئے ہیں ولوشاء اللہ ما اشرکوا یہ غلط نہیں وجہ یہ ہے کہ شاء اللہ کا مفہوم دونوں جملوں میں الگ الگ ہے پہلے جملے میں مشیت بمعنی رضا ہے یعنی اہل جہنم یہ عذر کریں گے کہ اگر اللہ تعالی ہمارے شرک و کفر پر راضی نہ ہوتا تو ہم شرک کر ہی نہ سکتے تھے اور دوسرے جملے میں مشیت بمعنی ارادہ ہے یعنی اللہ تعالی کا اگر یہ ارادہ ہوتا کہ لوگ شرک نہ کریں تو ان کو شرک کرنے کی قدرت ہی نہ ہوتی کیونکہ اللہ تعالی کے ارادہ پر کسی کا ارادہ غالب نہیں ہو سکتا ۔ اور بغیر اللہ کے ارادہ کے دنیا میں نہ کوئی اچھا کام ہو سکتا ہے نہ برا ۔ البتہ رضاء اللہ تعالی کی اچھے کاموں کے ساتھ متعلق ہوتی ہے برے کاموں سے رضا متعلق نہیں ہوتی بلکہ برے کاموں سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے ۔ حکیمانہ جواب ایک صاحب نے سورہ تبت یدا البی الھب کچھ شبہات پیش کئے ۔ یہ صاحب تعلیم یافتہ مگر علوم دین سے بے خبر تھے اور سوالات بھی دو راز کار تھے حضرتؒ نے فرمایا کہ آپ سمجھ نہیں سکتے ۔ یہ بولے کہ عالم ہی کیا ہوا جو صحیح بات سمجھا نہ سکے ۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ نے اقلیدس تو پڑھی ہو گی انہوں نے اقرار کیا ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اگر آپ کا نوکر گھوڑے کا سائس آپ سے پوچھے کہ اقلیدس کے پہلے مقالہ کی پانچویں شکل کا ثبوت آپ اس طرح بیان کریں کہ میں سمجھ سکوں تو جو تقریر آپ اس وقت فرما دینگے میں بھی اس کے سننے کا مشتاق ہوں ۔ کیا آپ کے پاس اس کے سواء کوئی جواب ہو گا کہ اس کا ثبوت بہت سے اصل موضوعہ اور علوم متعافرہ پر موقوف ہے جب تک تم ان کو نہ سمجھ لو ۔ پانچویں شکل کو نہیں سمجھ سکتے ۔