ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اوقات لوگوں کو التفات نہیں ہوتا یا کوئی دوسری رکاوٹ ہوتی ہے تو وہ کنہگار ہو جاویں گے ۔ اور فرمایا کہ مجھے اس معاملے میں متنبی شاعر کا یہ شعر پسند ہے ؎ اقل سلامی حب ماخف عنکم واسکت کیما لا یکون جواب یعنی ۔ میں آپ کو بہت کم سلام کرتا ہوں تا کہ آپ پر سلام کا جواب دینے کا بار نہ پڑے اور میں اکثر ساکت رہتا ہوں سوال بہت کم کرتا ہوں تا کہ آپ پر جواب دینے کا بار نہ ہو ۔ صاف گوئی کے درجات فرمایا کہ اہل اللہ جو صاف گوئی اختیار کرتے ہیں کسی کا عیب اس کو بتلانا ہوتا ہے تو صاف بتلا دیتے ہیں ۔ ان کی نیت چونکہ اصلاح اور ہمدردی کی ہوتی ہے اس لئے کسی کو نا گوار نہیں گزرتا بلکہ اس کی طرف کشش ہوتی ہے اور جو اس وصف اصلاح و ہمدردی سے خالی ویسے ہی صاف گوئی کرنے لگے تو وہ ایک خشونت اور سختی رہ جاتی ہے وہ دوسرے کو ناگوار بھی ہوتی ہے اور اس کی طرف کشش بھی نہیں ہوتی ۔ بزرگا دین کے تشدد کی حقیقت فرمایا کہ گڑھی کے رہنے والے مولوی صدیق احمد صاحب ایک مرتبہ سر سید بانی علی گڑھ کے پاس ملاقات کو گئے ۔ حضرت شاہ اسحق صاحب محدث دہلوی کا ذکر آیا ۔ سر سید نے فرمایا کہ لوگ ان کو دین کے معاملے میں متشدد کہتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر تو واقعی متشدد تھے ۔ ذرا ذرا سے شبہات سے بھی بچتے تھے مگر عام لوگوں کے لئے متشدد ہر گز نہ تھے بلکہ ان کے لئے سہولت شرعی گنجائش تلاش کرتے تھے اور فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ کا بھی یہی حال ہے ۔ عمل میں کوشش اور خدا پر بھروسہ بہت سے نا واقف ان دونوں میں تضاد سمجھتے ہیں ۔ اس کی حقیقت ایک حدیث سے واضح ہوتی ہے رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے ۔