ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
اس وقت شروع کرتے جب معلوم ہو جائے کہ صفیں درست ہو چکی ہیں ۔ علم کلام کے تمام مباحث بدرجہ ضرورت ہیں اصل دین نہیں ارشاد فرمایا کہ علم کلام کے بیشتر مسائل بدرجہ منع یعنی طلب دلیل کے ہیں مسائل یا قاعدہ شرعیہ نہیں مثلا متکلمین جو ترکیب اجسام میں جزء لایتجزی کے قائل ہیں وہ اس کے مدعی نہیں بلکہ مانع ہیں ۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ اس کی کیا دلیل ہے کہ جسم کا اجزاء لایتجزی سے مرکب ماننا محال ہے ۔ حضرت شیخ البو الحسن اشعریؒ جو علم کلام کے امام ہیں خود ان کی تصریح سے یہ بات ظاہر ہے غالبا شرح عقائد کے حواشی میں یہ حکایت منقول ہے کہ ایک شخص حضرت ابوالحسن اشعریؒ کی شہرت سن کر ان کی زیارت کے لئے چلا ۔ اتفاق سے راستہ میں ان سے ملاقات ہو گئی وہ اس وقت ایک مناظرہ کے لئے شاہی دربار میں جا رہے تھے ۔ اس شخص نے انہیں سے پوچھا کہ شیخ اشعری کہاں ملیں گے انہوں نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تمھیں ان سے ملا دیں گے ۔ شاہی دربار میں پہنچ کر مناظرہ شروع ہوا تو جب سب کی تقریریں ختم ہو چکیں اس وقت حضرت اشعریؒ اٹھے اور ایسے عجیب انداز سے ہر تقریر پر کلام اور شبہات کا جواب دیا کہ سب ساکت ہو گئے ۔ مجلس برخاست ہونے کے وقت اس شخص کو اندازہ ہو گیا کہ یہی ابو الحسن اشعریؒ ہیں تو ان سے عرض کیا کہ آپ نے خواہ مخواہ اتنی دیر بحثیں ہونے دیں اگر آپ اول ہی یہ تقریر کر دیتے تو کسی کے بولنے کی مجال ہی نہ رہتی ۔ اس پر حضرت اشعریؒ نے فرمایا کہ جب تک اہل الحاد کی طرف سے شبہات بیان نہیں کئے گئے تو میری اس تقریر کی ضرورت نہ تھی اس وقت میری ایسی گفتگو طریق سلف کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت ہوتی ۔ مگر جب ملحدین کے اعتراضات و شبہات سامنے آ گئے تو جواب دینا واجب ہو گیا ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ بس علم کلام کا یہی درجہ ہے کہ جب اور جہاں اسلام کے خلاف اہل کفر و الحاد کی طرف سے شبہات و شکوک پیش کئے جاویں تو اسکا جواب دینا واجب ہے ورنہ ان سے سکوت ہی اسلم ہے جیسا کہ سلف صالحین و تابعین کا طریق تھا ۔