ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
لوگوں کے جھگڑا کرنے کے لئے علماء سے فتوی لیتے پھرتے ہیں ۔ جب کسی شخص کے متعلق مجھے یہ محسوس ہوتا ہے تو میں اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ یہ معاملہ تمھیں پیش آیا ہے اور اپنے عمل کے لئے پوچھتے ہو یا کچھ اور ہے اگر وہ دوسروں کا معاملہ بتلائے تو اس کو جواب نہیں دیتا ۔ کہہ دیتا ہوں جس کا معاملہ ہے اس کو بھیجو یا وہ خود بذریعہ خط دریافت کرے ۔ نوکروں کو بھی انکی وسعت سے زیادہ تکلیف دینا درست نہیں 17 : فرمایا کہ مجھے اس کا بڑا خیال رہتا ہے کہ کسی سے اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام لیا جائے ۔ میں اپنے ذاتی ملازموں سے بھی کہہ دیتا ہوں کہ جو کام تم پر گراں ہو فورا کہہ دیا کرو کہ یہ مجھے مشکل ہو گا ۔ ہم اس کا کوئی دوسرا انتظام کر لیں گے ۔ بزرگوں کی شان میں گستاخی باطن کے لئے سخت مضر ہے بعض اوقات نا قابل علاج ہو جاتی ہے 18 : حضرت گنگوہیؒ نے نقل فرمایا کہ تفسیر سورہ یوسف منظوم کے مصنف ، حضرت میاں جی صاحب کی شان میں کچھ گستاخانہ الفاظ کہا کرتے تھے ۔ پھر متنبہ ہوا ۔ توبہ کی اور حضرت میاں جی صاحب سے بیعت کی درخواست کی ۔ بیعت کر لیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد تنہائی میں ان سے فرمایا کہ میاں اشرف ! اس طریق کی بنیاد اخلاص پر ہے اس لیے تم سے بات چھپانا نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ میں جب بغرض افاضہ تمھاری طرف توجہ کرتا ہوں تو تمھارے وہ سب کلمات جو پہلے کہے تھے میرے سامنے آ کر حائل ہو جاتے ہیں ۔ ہر چند تمھیں نفع پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر اس کی صورت نہیں بنتی اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم کسی اور شیخ سے بیعت کر لو ۔ میں بھی تمھاری سفارش کر دوں گا ۔ ( انتہی ) احقر جامع کہتا ہے کہ بہ گوئی حقد و کینہ نہیں بلکہ غیر اختیاری امر ہوتا ہے جس کا انسان مکلف نہیں ۔ جیسے رسول ؐ نے حضرت حمزہ کے قاتل وحشتی کو مسلمان ہونے کے بعد ہدایت فرمائی