ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
تفویض و توکل کا صحیح مفہوم جو بہت سے شبہات کا حل ہے 47 : ارشاد فرمایا کہ دعاء میں الحاح کرنا اور بار بار دعاء کرتے رہنا یہ تفویض کے منافی نہیں ۔ ہاں قبولیت دعاء کے آثار نظر نہ آنے پر پریشان ہونا منافی تفویض ہے کیونکہ وہ اپنی تجویذ سے پیدا ہوئی ہے اور تجویذ و تفویض میں تضاد ہے ۔ علمی اور عملی کمالات دینی میں بھی تفویض کا ایک درجہ یہ ہیں ان کے حاصل کرنے کا بھی قصد کرے اور کوشش بھی کرے مگر اس کیساتھ عدم حصوں پر بھی راضی رہے پریشان نہ ہو ۔ ( انتہی ) احقر جامع کہتا ہے کہ حدیث میں ایک خاص دعاء جو بالفاظ ذیل آئی ہے اس میں بھی اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے حدیث کی دعاء یہ ہے : ۔ اللھم انی اسئلک الصحتہ والعفۃ یا اللہ میں آپ سے مانگتا ہوں تندرستی اور والامۃ و حسن الخلق والرضی بالقدر پاک دامنی اور امانت داری اور حسن خلق اور آپ کی تقدیر پر راضی رہنا ۔ اس دعاء میں پہلے تو چند دینی کمالات کے حاصل ہونے کی دعاء ہے آخر میں یہ دعا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالی کی مشیت و تقدیر پر راضی رہوں خواہ وہ میری تمنا اور کوشش کے خلاف ہی ہو ۔ اسی لئے حضرتؒ نے آخر کلام میں ارشاد فرمایا کہ یہ طریق ( یعنی طریق تصوف ) سہل ممتنع ہے کہ دیکھنے میں بڑا سہل ہے مگر حقیقت میں بڑا دشوار کہ متضاد چیزوں کو جمع کرنا پڑتا ہے ۔ عبادت میں جی لگانا مطلوب ہے جی لگنا چونکہ اختیاری نہیں اس کا حکم بھی نہیں 48 : ارشاد فرمایا کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ عبادت کے اندر جو وساوس اور خیالات انسان کو آتے ہیں ان کے دفع کرنے میں زیادہ تند ہی سے پرہیز کرنا چاہیے کہ وہ مضر ہوتی ہیں اور فرمایا کہ یہ سوچنا چاہیے کہ مقصود اللہ تعالی کا راضی کرنا ہے اور وہ اپنے حد اختیار تک قلب کو فارغ کر کے عبادت میں لگ جانے سے حاصل ہو جاتا ہے ۔ پھر بھی جو وساوس اور خیالات غیر اختیاری طور پر آتے ہیں وہ مضر نہیں ۔ اس لیے زیادہ الجھن میں نہ پڑے ۔ اور اس کے باوجود