ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
بر آواز رہتے جب کسی کام کا حکم ہو فورا اس طرف چل دیں ۔ اول تو دین کے معاملات میں ان کو شبہات و سوالات پیدا ہی نہ ہوتے تھے اور جو ہوتے تو ادنی اشارہ اور مختصر تقریر سے کافور ہو جاتے تھے اور کیوں نہ ہو کہ سچی اور صحیح بات کا یہی طبعی اثر ہے ۔ حدیث میں رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ۔ الصدق طمانینۃ والکذب ریبہ یعنی سچی بات اطمینان کا سبب بنتی ہے اور جھوٹ شک و شبہ کا ۔ ایک طرف بات سیدھی سچی دوسری طرف قبول اور اطاعت کا جذبہ قوی ۔ اس لئے شبہات کی کوئی عمر ہی نہ ہوتی تھی ۔ حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے درمیان ایک معاملہ میں اختلاف رائے پیش آیا ۔ حضرت صدیق اکبر نے ایک دو مرتبہ فرما دیا ۔ و اللہ ھو خیر ۔ و اللہ ھو خیر ۔ یعنی خدا کی قسم خیر اسی میں ہے ۔ فاروق اعظم فرماتے ہیں کہ ان کلمات سے مجھے بھی اس معاملہ میں شرح صدر ہو گیا جس میں حضرت صدیق کا شرح صدر پہلے ہو چکا تھا اور اختلاف رائے ختم ہو گیا ۔ یہ ظاہر ہے کہ و اللہ ھو خیر نہ کوئی معاملے اور مسئلے کی دلیل ہے نہ کسی بحث کا جواب ہے مگر طالب حق کے لئے غور و فکر کی دعوت ہے وہ ہی اس جگہ کافی ہو گئی ۔ باپ جو بیٹے کو نصیحت کرتا ہے عادۃ وہ دلائل بیان نہیں کرتا ۔ لمبی تقریر نہیں کرتا ۔ بیٹے کی مصلحت کو مختصر لفظوں میں بتلاتا ہے وہی کافی ہو جاتی ہے قرآن کریم کے ارشادات عموما اسی رنگ کے ہوتے ہیں ۔ کسی مسلمان کی تکفیر یا تفسیق کے معاملہ میں بڑی احتیاط لازم ہے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اپنے انجام اور آخرت کی فکر درپیش ہوتی ہے اس کی زبان دوسروں کے حق میں آزاد نہ نہیں کھلتی ۔ وہ کسی کافر کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے کیونکہ اس