ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
حضرتؒ کا طبعی اعتدال اور انصاف اور معاشرت کے آداب خاص آخر زمانے میں طبعی ضعف کے سبب کچھ نہ کچھ عوارض لگے رہتے تھے جن کا علاج جاری رہتا تھا ۔ معالج حکیم محمد ہاشم صاحبؒ تھانوی تھے جو حضرتؒ کے بڑۓ معتقد مرید جیسے تھے ۔ اگر ان کو حضرت بلا بھیجیں تو وہ اپنی سعادت سمجھ کو خوشی سے حاضر ہوں مگر عادت حضرتؒ کی یہ تھی کہ جب تک کوئی شدید بیماری نہ ہو جس میں اٹھنا چلنا مشکل ہو جائے ۔ حکیم صاحب کو بلاتے نہ تھے بلکہ خود چل کر ان کے مکان پر جاتے اور علاج کے متعلق مشورہ لیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ ان کو بلا لوں تو انہیں باکل بھاری نہ معلوم ہو گا مگر اس کو انصاف کے خلاف سمجھتا ہوں کہ ضرورت اور حاجت تو میری اور تکلیف کریں حکیم صاحب ۔ اس معاملہ میں وہ مطلوب اور میں طالب ہوں ۔ طالب کی ذمہ داری ہے کہ خود حاضر ہو ۔ میں نے خود بارہا دیکھا کہ خانقاہ کی جس سہ دری میں حضرتؒ تشریف فرما تھے اس کے بالکل بالمقابل دوسری طرف کچھ فاصلہ سے مدرسہ تھا اور اسی کے قریب مہتمم خانقاہ آپ کے برادر زادے حضرت مولانا شبیر علی صاحب بیٹھتے تھے ۔ جب کبھی حضرتؒ کو کسی علمی مسئلے میں کسی مدرس سے بات کرنا ہوتی یا کسی انتظامی معاملہ میں بھائی شبیر علی صاحبؒ سے کام ہوتا تو اکثر خود اٹھتے اور ان کی جگہ پر پہنچ کر ان سے بات کرتے پھر واپس آ کر کام میں مشغول ہو جاتے تھے ان کو بلانا پسند نہ کرتے تھے کہ ممکن ہے کہ اس وقت وہ کسی ایسے کام میں ہوں جسکا چھوڑنا مشکل ہو ۔ اور ان کو تکلیف پہنچے ۔ یہ تھے وہ عادلانہ آداب معاشرت جو حضرتؒ صرف قول سے نہیں اپنے فعل سے بھی لوگوں کو عمر بھر تلقین کرتے رہے ہیں ۔ مگر افسوس ہے کہ متوسلین میں بھی اس خاص وصف پر بہت کم لوگوں نے دھیان دیا ۔ اسی سلسلے میں فرمایا کہ مجھے اگر کسی مجمع اور مجلس میں چھینک آتی ہے تو الحمد للہ آہستہ سے کہتا ہوں تا کہ سارے مجمع پر اس کا جواب دینا یر حمک اللہ سے واجب نہ ہو جائے کیونکہ بعض