ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
عقیدہ تقدیر کی حکمت قرآن کریم نے مسئلہ تقدیر کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ لیلا تاسوا علی ما فا تکم ولا تفرحوا بما اتاکم یعنی تقدیر خدا وندی کے متعقد ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ تمھارا کوئی مقصود فوت ہو جاوے تو تم زیادہ افسوس اور رنج و غم میں نہ گھلو اور اگر کوئی مقصود حاصل ہو جائے تو بہت زیادہ خوشی جو تکبر و غرور تک پہنچائے اس میں مبتلا نہ ہو واقعی بات یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے تمام واقعات و حالات کا خالق اور مالک اللہ تعالی کو جانتے ہیں اور انکا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے وہ تقدیر الہی سے ہوتا ہے اور اسکا واقع ہونا ناگزیر ہے ۔ کسی کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی وہ عیش و مصیبت اور راحت و تکلیف کی دونوں حالتوں میں اعتدال پر رہتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا اس کی واضح مثال یہ ہے کہ دو شخص ہوں ایک قائل تقدیر دوسرا منکر تقدیر اور دونوں کے دو لڑکے ہوں اور دونوں اکلوتے ہوں اور دونوں ایک ہی وقت ایک ہی مرض میں مبتلا ہو جاویں اور علاج معالجہ کے باوجود دونوں مر جاویں پھر دونوں کے متعلق یہ ثابت ہو جاوے کہ علاج میں غلطی ہو گئی ۔ تو اب دونوں کا حال دیکھئے کہ منکر تقدیر کو عمر بھر اضطراب اور بے چینی رہے گی ۔ کبھی قرار نہ آئے گا اور قائل تقدیر کو اس طرح کا اضطراب نہیں ہو گا کیونکہ وہ سمجھے گا کہ یہ علاج کی غلطی بھی مقدر ہی تھیں جس کا واقع ہونا ضروری تھا ۔ دنیا کو اللہ تعالی نے عالم اسباب بنایا ہے جو کچھ ہوتا ہے اسباب کے پردوں سے اسکا ظہور ہوتا ہے حقیقت ناشناس لوگ انہیں پردوں میں رکھ کر رہ جاتے ہیں اور جن کو حقیقت کا علم ہے اور جانتے ہیں کہ اسباب عالم سب پردے ہیں اصل فاعل تو قدرت حق ہے حافظ شیرازی نے خوب فرمایا ۔ این ہمہ مستی و بہیوشی نہ حد بادہ بود باحریفان آنچہ کرد آن نرگس مستانہ کرد نرگس مستانہ کنایہ ہے عنایت حق ہے ۔