ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
کافر کے درمیان سود کا معاملہ بحکم سود نہیں ( تو اس کافر بنیہ کو آپ کیوں رقم چھوڑتے ہیں ) حضرت مولانا نے فرمایا کہ یہ مسئلہ تو مجھے بھی یاد ہے مگر میں درمختار بغل میں دبائے کہاں کہاں پھروں گا ۔ لوگوں میں تو چرچا یہ ہو گا کہ شیخ محمد نے سود لیا ۔ عمل میں احتمال ریاء کے سبب عمل کو نہ چھوڑے کسی بزرگ سے ایک شخص نے شکایت کی کہ فلاں آدمی ریاء کاری کے طور پر ذکر اللہ کرتا ہے ۔ فرمایا کہ تم ریاء سے بھی ذکر نہیں کرتے ۔ اسکا ذکر ریائی بھی قیامت میں ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہو کر ہل صراط پر رہبر ہو گا ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگ کو معلوم ہو گا کہ اس شخص کے عمل میں ریاء اور اخلاص ملے جلے ہیں ورنہ جو عمل خالص ریاء کے لئے ہو اس کا کوئی نور نہیں ہو گا ۔ پھر فرمایا کہ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ کسی کام میں ریاء کا احتمال قلب میں آئے تو کام کو ہر گز نہ چھوڑے بلکہ یہ ارادہ کرے کہ کام تو میں یہ ضرور کروں گا بعد میں استغفار کر لوں گا ۔ سالکین کے لئے ایک اہم نصیحت ارشاد فرمایا کہ اچھی صورت یہ ہے کہ اگر کسی عمل میں کوتاہی کا احتمال ہو تو اس کی تحقیق اور کاوش میں نہ پڑے بلکہ اس کو واقع سمجھ کر استغفار کرے جیسے کسی راستہ میں دلدل ہو اور یہ خیال پیدا ہو کہ شاید پاؤں خراب ہوا ہو تو راہرو کو نہ چاہیے کہ اس کا مطالعہ کرنے بیٹھ جائے کہ کہاں لگا اور کیا لگا بلکہ جب کہیں پانی ملے دھو ڈالے ۔ حدیث کی تعلیم ولکن سد دو وا قار بوا کا یہی خلاصہ ہے ۔ تعلیم میں سہولت فرمایا کہ میں تعلیم میں زیادہ مستحبات کا اہتمام نہیں کرتا ۔ آج کل تو لوگ واجبات ہی سے بری ہو جائیں تو غنیمت ہے ۔