ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
ہوتا ہے کہ جزئیات میں تشدد کی عادت ہوتی ہے ۔ جس پر حدیث کا رنگ غالب ہوتا ہے اس کے فتوی کا رنگ اس سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں کچھ توسع ہوتی ہے یہ ترکی بزرگ تھے اور ترکوں میں عموما فقہ کا رنگ غالب ہوتا ہے اس کا بھی یہی حال تھا ۔ دہلی پہنچے تو بازار سے سودا کسی دوسرے کے ہاتھ نہ منگواتے تھے خود جا کر سودا خریدتے تھے اور فرماتے تھے کہ بازاروں میں عام طور پر بیوع فاسدہ رائج ہیں اس لئے دوسروں پر اطمینان نہیں ہوتا ۔ دہلی میں کسی بزرگ کے قائل نہ تھے یہ کہتے تھے کہ یہ لوگ متقی نہیں ۔ دہلی کے اکابر علماء کے متعلق اس وقت ان کی تحقیق یہ تھی کہ فرماتے تھے کہ عبدالعزیز آدمی ست عبدالقادر مسلمان ست و رفیع الدین نا حق بر علم خود غرہ می کند ۔ پھر حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کی خدمت میں حاضری کا اتفاق ہوا تو رنگ عجیب دیکھا تو یہیں کے ہو رہے بیعت ہوئے مجاہوے کئے اور ان کے خلیفہ مجاز ہوئے اور سب تقوی کے دعوے رخصت ہو گئے ۔ 19 ربیع الثانی 1358 ھ اکابر دیو بند کا عدل و اعتدال ٹھسکہ میں ایک بزرگ تھے بہادر علی شاہ صاحب سماع سنتے تھے مگر ذاکر شاغل عبادت گزار آدمی تھے ۔ ہمارے بزرگوں کے معتقد بھی تھے ۔ ایک مرتبہ پیران کلیر شریف کے سجادہ نشین نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ سے بیعت ہونے کی درخواست کی تو حضرت گنگوہیؒ نے ان کو مشورہ دیا بہادر علی شاہ صاحب ٹھسکہ والے سے بیعت ہو جاویں ۔ باوجود اختلاف مسلک کے بہادر علی صاحب کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ اور خود بظاہر اس لئے نہ کیا کہ سجادہ نشین کو بہت سی رسوم کی شرکت ۔ ضروری ہوتی ہے جو حضرت کے مذاق کے خلاف تھیں ۔