ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
لارڈ میکالے کا سست رفتار زہر ان میں سرایت کر گیا اور رفتہ رفتہ اسلامی اور قومی حمیت کا خاتمہ ہوا مسلمانوں نے ہر چیز میں اپنے آپ کو انگریز بنا کر دکھلانے ہی کو کمال سمجھ لیا تو باہم اختلاط اور تعلقات بڑھے ۔ جس کا نتیجہ وہ ہوا جو آج آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ نئی تعلیم پانے کے بعد آدمی عموما صرف نام کا مسلمان رہ جاتا ہے اصول دین سے غفلت اور بے پرواہی شعار بن جاتی ہے اور اب تو کھلے طور پر دین و اصول پر اعتراضات بھی ہونے لگے ۔ ( انا للہ ) حضرت حاجی امداد اللہؒ کی ایک اہم وصیت ارشاد فرمایا کہ حاجی صاحبؒ نے وصیت فرمائی تھی کہ بھائی کسی سے الجھنا نہیں ۔ جب کسی کام میں جھگڑا ہو تو اس کو چھوڑ کر الگ ہو جانا ۔ پھر فرمایا کہ میرا ہمیشہ یہی معمول رہا ہے ۔ تصوف علوم طبعیہ میں سے ہے ارشادف فرمایا کہ اصول تصوف میں غور کرو تو وہ سب علوم طبعیہ میں سے ہیں ذرا بھی طبیعت میں سلاست ہو تو خود بخود آدمی کے دل میں وہی آئے گا جو بزرگوں نے فرمایا ہے ۔ سواد اعظم کی تفسیر فرمایا کہ فتنہ اور اختلافات کے وقت رسول اللہ ؐ نے سواد اعظم کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ سواد اعظم کے مفہوم میں علماء کے متعدد اقوال میں راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد تو وہی ہے جو ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے یعنی جس طرف مجمع زیادہ اور اکثریت ہو اس لا اتباع کیا جائے مگر میرے نزدیک یہ مخصوص ہے زمانہ خیرالقرون کے ساتھ جس میں مجموعی اعتبار سے خیر غالب تھی ۔ آج کل کی اکثریت اس ارشاد کا مصداق نہیں کیونکہ آج کل تو عموما غلبہ اور اکثریت بے راہ چلنے والوں کی ہے ۔ اصول تصوف فرمایا کہ فن تصوف کا حاصل دو چیزیں ہیں ۔ ایک ذکر اللہ دوسرے طاعت یعنی اتباع احکام