ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
کشف کو محض تائید کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ پھر فرمایا کہ حضرت شیخ اکبر کے بعض کشف تلبیس شیطانی سے پاک ہوتے ہیں جو تجربہ سے ثابت ہے لیکن کسی کشف کا خالی از تلبیس ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ اس کو شرعی حجت بنا لیا جائے ۔ جیسے کسی شخص نے عید کا چاند تنہا دیکھا ہو اور اس کو اس دیکھنے میں کوئی شبہ اور تلبیس بھی نہ ہو مگر اس کا تنہا دیکھنا حجت شرعیہ نہیں اس کی بناء پر قاضی لوگوں کو عید کرنے کا حکم نہیں دے سکتا ۔ مثنوی کے ایک شعر کی شرح و تقریر مولانا رومی نے فرمایا ؎ پس زبون وسوسہ باش دلا گر طرب را باز دانے از بلا گر مرادت را مذاق شکر است نا مرادی نے مراد دلبر ست فرمایا کہ مومن کی شان یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح وہ اپنی خواہش کے مطابق کام ہونے پر خوش اور راضی رہتا ہے ۔ خلاف طبع خلاف تمنا کام ہو جانے پر بھی اسی طرح دل سے راضی رہے جیسا کہ حدیث میں رضا بالقدر کی دعاء تلقین فرمائی گئی یعنی جو کچھ اللہ تعالی نے بندے کے لئے مقدر کر دیا ہے وہ اگرچہ اس کی طبعیت اور خواہش کے خلاف ہو مگر یہ تصور کرے کہ ہمارا رب کریم رحیم بھی ہے حکیم بھی ۔ اس نے جو کچھ کیا وہ کسی حکمت و محلحت پر مبنی ہے اور انجام کار میرے لئے رحمت ہے ۔ اسی مضمون کو پہلے شعر میں اس طرح ادا کیا ہے کہ اپنی خواہش اور خوشی کو بہتر اور جو کچھ تقدیری طور پر سامنے آیا اس کو برا سمجھا ۔ یہ وسوسہ شیطانی ہے ۔ اور دوسرے شعر میں اسی رضاء بالقضاء کی تحصیل کے لئے ایک عاشقانہ تصور یہ دیا ہے کہ تم غور کرو کہ تمھیں ایک چیز بھلی معلوم ہو رہی تھی اس کی طلب میں تھے ۔ محبوب حقیقی کو وہ چیز پسند نہ تھی ۔ اس نے دوسری صورت اختیار فرما لی تو عاشق کا فرض ہے کہ محبوب کی پسند پر اپنی پسند کو قربان کر دے ۔ اور فرمایا کہ اگر تمھیں اپنی مراد اور خواہش شیرین معلوم ہوتی ہے اور تمھارے محبوب حقیقی کو تمھاری نا مرادی اور نا کامی پسند ہے تو تم اپنی پسند کو اس کی پسند پر قربان کر کے دل سے راضی