ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
دیتا ہوں کہ پھر ظنی ہونے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جانب مخالف کا شبہ اس میں رہتا ہے ۔ اگر تمھیں شبہ ہے تو ہوا کرے اس سے تو مسئلہ کی ظنیت کی تاکید و تقویت ہوتی ہے ۔ ایسے شبہ سے کچھ حرج نہیں ہے ۔ حضرت شاہ اسحق صاحب اور ان کے ایک شاگرد عالم کی حکایت حضرت شاہ اسحق صاحب دہلویؒ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ اجمیر کا اس لئے اختیار کیا کہ راستہ میں حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر حاضری ہو جاوے گی ۔ اجمیر شریف میں حضرت شاہ صاحب کے ایک شاگرد تھے آپ نے ان کو اپنے آںے کی اطلاع دی تو شاگرد صاحب نے جواب میں لکھا کہ آپ یہاں تشریف نہ لائیں کیونکہ میں یہاں زیارت مزارات کے لئے شدر حال اور سفر کر کے جانے کو منع کرتا ہوں کیونکہ لوگوں نے اس میں غلو بہت کر رکھا ہے اگر آپ تشریف لائے تو میں یہ کس کس سے کہتا پھرونگا کہ حضرت یہاں مستقل سفر کر کے تشریف نہیں لائے بلکہ سفر حج کے راستہ میں یہاں آنا ہوا ہے ۔ حضرت شاہ اسحق صاحبؒ نے پھر اس کو جواب میں لکھا کہ مجھ سے تو پر صبر نہیں ہوتا کہ اجمیر شریف کے راستہ گزروں اور مزار پر حاضری نہ دوں ، البتہ آپ کی مصلحت بھی قابل رعایت ہے اس لئے اس کی صورت یہ ہے کہ جب میں وہاں حاضر ہوں آپ ایک مجلس وعظ منعقد کریں اور اس میں زیارت قبور کے لئے شدر حال اور مستقل سفر کرنے کی مخالفت بیان کریں ۔ میں بھی اسی مجلس میں شریک ہوں گا اور ختم وعظ پر میں اعلان کر دوں گا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے توبہ کرتا ہوں ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کام عاشقوں کے سوا کوئی نہیں کر سکتا ( احقر جامع کہتا ہے ) کہ استاد شاگرد کی بے تکلفی اور دین کی فکر و اہتمام بھی اس واقعہ میں قابل تقلید ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ ایک کتاب بچپن میں ںظر سے گزری تھی جو غالبا مفتی سعد اللہ صاحب کی تصنیف