ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
اجازت دی گئی ہے ۔ کاملین کو اس کی ضرورت نہیں رہتی ۔ جذب و سلوک کے معاملے میں رحمت حق کا ایک خاص مظہر ارشاد فرمایا کہ مولانا صدیق احمد صاحب انبہٹویؒ ( خلیفہ حضرت گنگوہیؒ ) فرمایا کرتے تھے کہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں جس چیز کو وصول الی اللہ ( اللہ تک پہنچنا ) کہا جاتا ہے اس کے لئے عادۃ اللہ یہ ہے کہ پہلے بندہ کی طرف سے سلوک ہوتا ہے یعنی اپنی سعی و عمل کے ذریعہ اللہ کا راستہ طے کرنا جب انسان اپنے حد اختیار تک یہ کام کر لیتا ہے تو پھر حق تعالی کی طرف سے جذب ہوتا ہے اور اسی جذب سے منزل مقصود تک رسائی ہوتی ہے ۔ بغیر جذب حق کے سلوک محض کافی نہیں ہوتا ۔ مگر قدیم زمانے میں اس سلوک کے لئے محنت شاقہ اور بڑے مجاہدات شرط تھے اس کے بعد جذب کی نوبت آتی تھی ۔ اس زمانے میں انسانی قوی کا انحطاط ہے ۔ اس لئے مجاہدات شاقہ کے بغیر ہی جذب حق نصیب ہو جاتا ہے شرط یہ ہے کہ اتباع سنت کا پورا اہتمام کرے کیونکہ جذب علامت محبوبیت ہے اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۔ ( اس میں رسول اللہ ؐ کو خطاب ہے ) آپ ؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تم کو اللہ تعالی سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو ۔ اس اتباع سنت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ہو جاؤ گے ۔ آئمہ مجتہدین سب کے سب صاحب مقامات اولیاء اللہ تھے امام غزالیؒ نے اپنی کتاب فاتحتہ العلوم میں اکثر ائمہ مجتہدین ابو حنیفہ ، شافعی ، مالک ، احمد بن حنبلؒ وغیرہ کے متعلق ثابت کیا ہے کہ یہ حضرات صحابہ و تابعین کی طرح ظاہر و باطن ہر حیثیت سے مکمل اولیاء اللہ تھے ۔ اگرچہ ان کو اسی طرح کی رسمی مجاہدات کی نوبت نہیں آئی جو عموما صوفیاء کرام میں معروف تھے ۔ اسی سلسلہ ذکر میں ارشاد فرمایا کہ مولانا رومیؒ کے ایک شعر کا عام لوگ غلط مفہوم لے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت اور چیز ہے طریقت دوسری چیز یہ آئمہ مجتہدین اصحاب شریعت تھے اصحاب طریقت نہ تھے ۔ وہ شعر یہ ہے ؎