ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
کرنا ہے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے اس کو عقیدہ کا درجہ دینا حد سے تجاوز کرنا ہے جن حضرات علماء نے علم کلام کے اشتغال کو منع کیا ہے وہ اسی غلو اور حد سے تجاوز کی بناء پر کیا ہے مثلا حضرات متکلمین نے فلاسفہ کے اس قول کو رد کیا کہ جسم ہیولی اور صورت سے مرکب ہے اس کے بالمقابل جسم کی ترکیب اجزاء لا یتجزی سے قرار دی ۔ تو جو لوگ جزء لا یتجزی کے مسئلے کو مانع یعنی احتمال پیدا کرنے کے درجے میں رکھیں وہ کوئی خلاف شرع کام نہیں کر رہے لیکن اگر یہ عقیدہ بنا لیں کہ جسم کی ترکیب اجزاء لا یجزی سے ہے تو شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہونے کی بناء پر ایسا عقیدہ رکھنا غلط اور نا جائز ہو گا ۔ عمل میں احتیاط اور بد گمانی میں فرق ارشاد فرمایا کہ گلستان اور بوستان کے دو شعروں میں تضاد ہے شیخ شعدیؒ نے گلستان میں تو یہ فرمایا کہ ؎ ہر کرا جامہ پارسا بینی پار سا دان و نیک مرد انکار اس کا حاصل تو یہ ہے کہ کسی کے باطنی معاملات کی تفتیش نہ کرے جو ظاہر میں نیک ہو اس کو نیک ہی سمجھے ۔ اور بوستان میں فرمایا کہ ؎ نگہ دارد آن شوخ در کیسہ در کہ داند ہمہ خلق را کیسہ بر اس کا حاصل یہ ہے کہ سارے لوگوں کو چور سمجھے ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ در حقیقت یہ کوئی تضاد نہیں ۔ پہلا شعر اعتقاد رکھنے کے متعلق ہے کہ جن کی ظاہری صورت نیک لوگوں کی دیکھو اس کو نیک ہی اعتقاد کرو ۔ بلاوجہ بد گمانی نہ کرو ۔ اور بوستان کا شعر عملی احتیاط اور معاملات میں بیدار مغزی کیلئے ہے کہ عمل میں ہر ایک نیک و بد سے اپنی چیز کی ایسی حفاظت کرو جیسے ۔ چوروں سے کی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا کہ حاصل یہ ہے کہ اعتقاد رکھنے کی