ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
کے اور اپنے انجام کا علم نہیں ۔ ہیچ کافر را بخواری منگرید کہ مسلمان بود نش باشد امید پھر فرمایا کہ علماء اہل فتوی کو مجبور ہونا پڑتا ہے کہ یہ فیصلہ کرے کون مسلم ہے کون کافر ۔ کون حالح ہے کون فاسق ۔ مگر کسی معین شخص کے لئے ایسا حکم کرنا بڑا کٹھن مسئلہ ہے ۔ بڑی احتیاط لازم ہے اور الحمد للہ علمائے حق ہمیشہ اس کی رعایت رکھتے ہیں لیکن بے فکرے لوگ پھر بھی علماء پر زبان طعن دراز کرتے ہیں کہتے ہیں ۔ کہ یہ علماء لوگوں کو کافر بناتے ہیں ۔ میں ان کے جواب میں کہتا ہوں کہ کافر بناتے نہیں کافر بتاتے ہیں ۔ یعنی جو شخص اپنے باطل عقیدے کے سبب کافر ہو چکا ہے مگر اس کا کفر مخفی ہے مسلمانوں کو تنبیہہ کرنے کے لئے بتاتے ہیں کہ یہ اپنے عمل سے کافر ہو چکا ہے ۔ تکبر کی حقیقت اور ایک اشکال کا جواب ارشاد فرمایا کہ اوصاف کمال میں اللہ تعالی نے انسانوں کے مختلف درجات رکھے ہیں کوئی ناقص ہے کوئی کامل کوئی اکمل ۔ مثلا ایک شخص کی نگاہ قوی بہت باریک اور دور کی چیز کو دیکھتی ہے دوسرے کی ضعیف ہے جو ان کو نہیں دیکھ سکتی ۔ ایک شخص کو دو آنکھیں سالم ملی ہیں دوسرے کی دونوں یا ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہے ۔ اب اگر کوئی بینا آدمی اپنے آپ کو نابینا سے اکمل سمجھے یا قوی البصر بہ نسبت ضعیف البصر کے اپنے کو اکمل سمجھے تو یہ تکبر میں داخل نہیں ۔ اس کے خلاف پر مجبور کیا جائے تو تکلیف مالا یطاق ہو جائے گی ۔ ایک شخص جو کسی کتاب کا ایک حرف نہ پڑھ سکتا ہو نہ لکھ سکتا ہو دوسرا آدمی عالم فاضل حافظ و قاری اور مفسر محدث ہے ۔ وہ یہ کیسے باور کرے کہ نا خواندہ آدمی اس سے زیادہ کامل ہے ۔ اس لئے اگر ایک عالم یہ سمجھے کہ مجھے لکھنا پڑھنا آتا ہے ۔ اس وصف میں میں بہ نسبت دوسرے کے کامل ہوں اور یہ کمال بھی کوئی میری ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کا انعام اور عطیہ ہے تو یہ تکبر میں داخل نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے کو کسی خاص وصف میں دوسرے سے اکمل جاننا تکبر نہیں ۔ ہاں افضل اور بہتر جاننا تکبر ہے ۔ کیونکہ افضل اور بہتر ہونے کا مدار اللہ