ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
|
رہا یہ سوال کہ جنت کی سب سے بڑی نعمت اللہ تعالی شانہ کی زیارت اور مشاہدہ ہے مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ مشاہدہ ذات و صفات کی کنہ اور حقیقت کا نہیں ہو گا ۔ تو جس قسم کا مشاہدہ حاصل ہو گا ۔ اس سے تو اہل جنت کا انس متعلق ہونا صحیح ہے لیکن جو درجہ مشاہدہ جمال حق کا اس کو وہاں حاصل ہو گا اس کا تو شوق ہونا چاہیے ۔ حضرتؒ نے ارشاد فرمایا کہ شوق کا تعلق اس غیر حاصل مقصود سے ہوتا ہے جس کا حصول انسان کی قدرت میں ہو اور اس کو حصول توقع اور امید ہو اور جس چیز کا حصول انسان کی قدرت و استعداد سے خارج ہو اس کے ساتھ شوق کا تعلق نہیں ہو سکتا ۔ جیسے دنیا میں کسی انسان کو آسمان کے اندر زندہ جانے اور پھر واپس آنے کا شوق نہیں ہوتا ۔ جنت میں جس قسم کا مشاہدہ جمال حق انسان کی قدرت میں ہے وہ تو حاصل ہو جائے گا اور جو حاصل نہیں وہ اسکی استعداد و قدرت سے خارج ہو گا اس لئے شوق بھی نہیں ہو گا ۔ فضول ولا یعنی تحقیقات طالب حق کا کام نہیں فرمایا کہ سالک اپنے ضروری مشاغل کو چھوڑ کر لا یعنی اور فضول تحقیقات کے در پے ہو تو یہ اسکی علامت ہے کہ وہ طالب ہی نہیں جیسے کسی شخص کے سامنے کھانا لایا جاوے وہ کھانے میں مشغول ہونے کے بجائے یہ سوالات اور تحقیقات کرنے بیٹھ جائے کہ یہ چیزیں کس بازار سے خریدی گئیں کون لایا کس نے پکایا کسی طرح پکایا کیا مسالے اس میں ڈالے ۔ تو یہ علامت اس کی ہو گی کہ اس کو کھانے کی ضرورت اور بھوک نہیں ہے ۔ علماء و صلحاء کا مالداروں سے مستغنی رہنا اعزاز دین ہے اگر ریاء بھی ہو تو ثواب سے خالی نہیں ارشاد فرمایا کہ مالداروں سے علماء و صلحاء کا اظہار استغناء دین کی اہم ضرورت ہے اس کے نہ ہونے کے سبب عام لوگوں میں نہ علماء کی بات کا کوئی اثر رہتا ہے نہ وہ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ اپنا محتاج سمجھتے ہیں ۔ اس لئے اگر کسی شخص کے دل میں اخلاص نہ ہو محض دکھلاوے اور ریاء