ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
مقصود نہ تھی ۔ کیونکہ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ نے مجھے یہ وصیت فرمائی تھی کہ کانپور کی ملازمت چھوڑ و تو پھر کوئی دوسری ملازمت اختیار نہ کرنا ۔ اب میں حضرت کو بھی حضرت حاجی صاحب کے قائم مقام سمجھتا ہوں اگر اس پر بھی ملازمت اختیار کرنے کا حکم ہو تو میں اس کو بھی حضرت حاجی صاحب ہی کا حکم سمجھوں گا اور پہلے حکم کا ناسخ قرار دے کر ملازمت اختیار کروں گا ۔ اس پر حضرۃ گنگوہیؒ کا جواب آیا کہ اب آپ کوئی ملازمت نہ کرو انشاء اللہ تعالی پریشانی نہیں ہو گی ۔ تقوی اور تواضع کی خاص شان مشورہ اکابر کی پابندی 10 : حضرت کے والد ماجد خاندانی رئیس اور صاحب ثروت تھے ۔ ذرائع آمدنی بھی کوئی نا جائز نہ تھے مگر حضرت کی نظر میں کچھ مشتبہ تھے ۔ والد ماجد کی وفات کے بعد ترکہ میں اپنے حصہ میراث کا معاملہ سامنے آیا تو لینے میں تردد ہوا ۔ از خود کوئی فیصلہ کرنے کی عادت نہ تھی ۔ حضرت گنگوہی کو خط لکھ کر سوال کیا کہ حصہ لینے میں مال مشتبہ ہونے کی وجہ سے تردد ہے اور چھوڑ نے میں اس لئے تردد ہے کہ کہیں بعد میں پریشانی نہ ہو ۔ جواب آیا : " اگر یہ حصہ لے لو تو فتوی ہے نہ لو تو تقوی ہے اور پریشانی انشاء اللہ عمر بھر نہ ہو گی ۔ ،، حضرتؒ نے تقوی کا پہلو اختیار کیا اور اپنا حصہ میراث جو بڑا سرمایہ تھا بھائیوں کے لئے چھوڑ دیا ۔ احقر نے اپنے والد سے سنا کہ حضرت گنگوہیؒ فرمایا کرتے تھے کہ مولانا اشرف علی کا ادنی تقوی یہ ہے کہ والد کی میراث کا حصہ نہیں لیا ۔ یہاں تقوی کے ساتھ صرف اپنی رائے پر اعتماد نہ کرنا بزرگوں کے مشورہ پر عمل کرنا ایک بہت بڑا حکیمانہ اصول ہے جس کی پابندی حضرتؒ خود بھی ہمشیہ کرتے تھے اور سب کو تاکید فرماتے تھے کہ " انسان کو چاہیے کہ کبھی خود رائی سے کام نہ کرے جب تک ضابطہ کے بڑے موجود