ملفوظات حکیم الامت جلد 24 - یونیکوڈ |
کرامت کا درجہ اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور حق ہے ۔ اس پر امت کا اتفاق ہے لیکن عوام میں کرامت کو بہت بڑی چیز سمجھا جاتا ہے اور بزرگوں کے جو اصلی کمالات ہیں ۔ ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے حضرتؒ نے فرمایا کہ ۔ اہل تحقیق کے نزدیک کرامت کا درجہ اس ذکر لسانی سے بھی کم ہے بغیر حضور قلب کے کیا جائے ۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ذکر اللہ خواہ بغیر حضور قلب کے ہو کچھ نہ کچھ اجر و ثواب اس پر حاصل ہوتا ہے اور اجر و ثواب پر قرب خدا وندی مرتب ہوتا ہے بخلاف کرامت کے کہ وہ صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے ۔ اس پر نہ کوئی اجر و ثواب ملتا ہے اور نہ اس سے تقرب الی اللہ میں کوئی ادنی اضافہ ہوتا ہے ۔ اور فرمایا کہ کرامت میں کسی بزرگ کے اختیار و عمل کا کوئی دخل نہیں ہوتا بعض اوقات اس کو خبر بھی نہیں ہوتی ۔ حضرت یوسفؑ کے واقعہ میں قرآن کریم نے فرمایا ۔ لو لا ان رای برھان ربہ ۔ یعنی ( یوسفؑ ) اگر اپنے رب کی برہان و دلیل نہ دیکھتے ( تو ممکن تھا کہ ان کا میلان زلیخا کی طرف ہو جاتا ) ۔ اس برہان رب کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یوسفؑ نے حضرت یعقوبؑ کو اس تنہائی میں سامنے انگشت بدندان دیکھا ۔ یہی برہان رب تھی جس کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی ۔ اگر یہ تفسیر صحیح ہو تو یہ بات ظاہر ہے کہ یہ یعقوبؑ کی کرامت یا معجزہ تھا مگر یعقوبؑ کو اس کی خبر بھی نہ تھی کیونکہ اگر یعقوبؑ کو یوسفؑ کا یہ پتہ نشان معلوم ہو جاتا کہ وہ عزیز مصر کے گھر میں ہیں تو بعد میں یہ نہ فرماتے ۔ یا بنی اذھبوا فتحسسوا من یوسف و اخیہ یعنی ۔ اے میرے بیٹو ! جاؤ تم یوسفؑ اور اس کے بھائی کو تلاش کرو ۔